تحریر : طارق انور مصباحی
ضروریات اہل سنت کا تاویل کے ساتھ انکارکفر فقہی
(1)ضروریات اہل سنت کا انکار اگر لاعلمی کی حالت میں ہوتو متکلمین وفقہا کسی فریق کے یہاں حکم کفرعائد نہیں ہوگا۔
(2)اگر علم کی حالت میں بلاتاویل ضروریات اہل سنت کا انکار ہوتواستخفاف بالدین کے سبب فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں حکم کفرعائد ہوگا۔
متکلمین کے یہاں حکم کفر عائد ہونے کی شرط یہ ہوگی کہ انکار صریح متعین ہو،جیسا کہ ضروریات دین کاانکار صریح متعین (مفسر)ہو،تب حکم کفر عائد ہوتا ہے۔
فقہا کے یہاں صریح متبین اورصریح متعین وونوں قسم کے انکار پر حکم کفر ہوگا،بلکہ ظنی انکار پر بھی حکم کفر عائدہوگا،جیسے ضروریات دین کے ظنی انکار پرحکم کفر عائد ہوتا ہے اوراس میں فقہا کا باہمی اختلاف بھی ہوگا،جیسے ضروریات دین کے ظنی انکارمیں فقہا کا اختلاف ہوتا ہے۔فقہا ئے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں دونوں قطعیات کے انکار پر حکم کفر عائد ہوتا ہے۔قطعی کی قسم سوم یعنی ظنی ملحق بالقطعی کے انکار پر حکم ضلالت عائد ہوتا ہے۔
(3)اگرضروریات اہل سنت کا تاویل کے ساتھ انکار ہوتو فقہائے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں حکم کفر ہوگا اور متکلمین کے یہاں حکم ضلالت عائد ہوگا۔
ایک قطعی بالمعنی الاعم مسئلہ کے انکارکی بحث:
ماہواری کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کی حرمت قطعی بالمعنی الاعم ہے۔ اس کے انکار کی مختلف صورتیں اورمختلف احکام ہیں۔ اس کی دلیل منقوشہ ذیل آیت مقدسہ ہے۔
(ویسئلونک عن المحیض قل ہو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولا تقربوہن حتی یطہرن:الایۃ)(سورہ بقرہ:آیت 222)
قال التفتازانی:(ذکر الامام السرخسی فی کتاب الحیض:انہ لو استحل وطی امرأتہ الحا ئض یکفر-وفی النوادرعن محمد:انہ لا یکفر- ہو الصیحیح)(شرح العقائد النسفیہ: ص 168)
توضیح: اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کی حرمت قطعی بالمعنی الاخص نہیں،یعنی ضروریات دین میں سے نہیں،بلکہ قطعی بالمعنی الاعم ہے،یعنی ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔ آیت قرآنیہ حرمت میں مفسر نہیں ہے،بلکہ یہاں اس بات کا احتمال بعید موجودہے کہ نہی کا ورود حالت حیض میں جماع کوقبیح بتانے (استقذار)کے لیے ہوا ہو۔یہ آیت حرمت بتانے کے لیے وارد نہ ہوئی ہو۔علامہ فرہاری نے یہی تاویل پیش کی ہے۔چو ں کہ مذکورہ احتمال پرکوئی دلیل نہیں،لہٰذا یہ احتمال بعید قرار پایا،اور حرمت قطعی بالمعنی الاعم قرار پائی۔
اگر قطعی بالمعنی الاعم امردینی کا انکار تاویل فاسدکے سبب ہوتو متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی کا حکم ہوگا،اور فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین کے یہاں کفر فقہی کا حکم ہو گا۔اگر قطعی بالمعنی الاعم کی قطعیت کا علم ہو، اور اس کا انکار بلاتاویل ہو تو یہ استخفاف بالدین اور کفر عنادی ہے۔ ایسی صورت میں کفر کلامی کا حکم عائد ہوگا،جب کہ انکار صریح متعین ہو۔
علامہ تفتازانی کی عبارت میں ہے کہ محرر مذہب حنفیہ حضرت امام محمد بن حسن شیبانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کوجو حلال سمجھے،وہ کافر نہیں۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو تاویل فاسد کے سبب حلال سمجھے،وہ کافر نہیں۔
امام سرخسی حنفی نے فرمایا کہ حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع کوحلال سمجھنے والا کافر ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کواس کی حرمت کے قطعی ہونے کا علم ہے،وہ بلا تاویل اس کوحلال سمجھے تو استخفاف بالدین کے سبب وہ کافر ہے۔
مندرجہ ذیل دواقتباس میں مذکورہ بالامسئلہ کی تفصیل ہے۔
قال الفرہاروی:((لایکفر)لاحتمال ان یکون النہی للاستقذار،لا للتحریم-ویوافقہ قول الامام ابی یوسف فیمن حلف ان لایطاء امرأتہ حرامًا-فَجَامَعَہَا فی الحیض انہ لایحنث-وکذا قولہم ان الزوج الثانی اذا جامع المطلقۃ بالثلث فی الحیض،حلت للاول(وہوالصحیح)
وقال ابراہیم بن رستم احد ائمۃ الحنفیۃ-ان استحل علٰی زعم ان النہی لیس للتحریم لم یکفر-وان استحل مع العلم بان النہی یفید الحرمۃ کفر-وعندی ان ہذا القول اعدل)(النبراس شرح شرح العقائدالنسفیہ:ص340)
توضیح:علامہ تفتازانی کی عبارت میں منقول حضرت امام محمد بن حسن شیبانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول یعنی جو اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کوجو حلال سمجھے،وہ کافر نہیں۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اس احتمال کے سبب حلال سمجھے کہ حالت حیض میں جماع سے منع فرمانا حرمت کے سبب نہیں،بلکہ پلیدی کے سبب ہے تو اس تاویل فاسد کے سبب حرمت کا انکار کرنے والا متکلمین کے یہاں کافر نہیں،کیوں کہ تاویل فاسد کے سبب قطعی بالمعنی الاعم کا انکار متکلمین کے یہاں کفر نہیں،بلکہ ضلالت وگمرہی ہے۔
اس کے قطعی بالمعنی الاعم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت امام ابویوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ کسی نے قسم کھائی کہ وہ اپنی بیوی سے حرام طریقے پر جماع نہیں کرے گا، پھر اس نے حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع کیا تو قسم نہیں ٹوٹے گی،کیوں کہ حرام سے حرام قطعی (قطعی بالمعنی الاخص)مراد لیا جائے گا۔حالت حیض میں جماع کی حرمت قطعی بالمعنی الاعم ہے،لہٰذا حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع کے سبب وہ حانث نہیں ہوگا۔
اسی طرح کسی عورت کوتین طلاق دی گئی،پھر اس نے کسی مردسے نکاح کیا۔ شوہر دوم نے حالت حیض میں جماع کیا تو گرچہ اس حالت میں جماع حرام ہے،لیکن وہ عورت اس جماع کے سبب شوہر اول کے لیے حلال ہوجائے گی،کیوں کہ یہ جماع نکاح کے بعد ہوا ہے، گر چہ حالت حیض میں جماع حرام ہے،لیکن نکاح اورجماع دونوں پالیے گیے تو شوہر اول کے لیے حلت ثابت ہوگئی،گر چہ کسی سبب سے وہ جماع حرام ہو۔
عبارت مذکورہ بالا سے ثابت ہواکہ حالت حیض میں جماع کی حرمت قطعی بالمعنی الاعم ہے،اور قطعی بالمعنی الاعم کا تاویل کے ساتھ انکار متکلمین کے یہاں کفر نہیں،بلکہ ضلالت ہے۔ فقہائے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں تاویل کے ساتھ انکار کفر فقہی ہے۔
قال فخرالدین قاضی خان:(رجل استحل الجماع فی حالۃ الحیض -قال ابو بکر البلخی رحمہ اللّٰہ تَعَالٰی:استحلال الجماع فی الحیض کفر-وفی الاستبراء بدعۃ وضلا ل ولیس بکفر۔
وعن ابراہیم بن رستم ان استحل الجماع فی الحیض متأولًا اَنَّ النَّہیَ لیس للتحریم-او لم یعرف النہی،لایکفر-لانہ ان عرف ان النہی للتحریم-ومع ذلک استحل الجماع فیہ کان کافرا)
(فتاوٰی قاضی خان:جلدسوم:ص576-دار احیاء التراث العربی بیروت)
توضیح:اگر منکر نے یہ یقین کیا کہ آیت مقدسہ میں نہی کا ورود تحریم کے لیے ہے،اس کے باوجود اس نے حرمت کا انکار کیا تو کافر کلامی ہے، کیوں کہ یہ استخفاف بالدین ہے۔
اگر تاویل فاسدکے سبب مذکورہ حرمت کاانکار کیاتو متکلمین کے یہاں کافر نہیں،بلکہ گمراہ ہے۔فقہائے احناف کے یہاں تاویل کے ساتھ انکار کفر فقہی ہے۔
اسی طرح کسی نے حدیث موضوع کو حدیث نبوی یقین کیا،پھر اس کا انکار کیا تو یہ استخفاف بالدین ہے،اور منکر کافر ہوگا۔گرچہ حدیث موضوع کا حکم یہی ہے کہ اس کو تسلیم نہ کیا جائے،بلکہ اس کا انکار کیا جائے۔یہاں استخفاف بالدین کے سبب حکم کفر عائدہوا،نہ کہ حدیث موضوع کے انکار کے سبب۔
فقیہ ابراہیم بن رستم حنفی علیہ الرحمہ کے منقولہ بالاقول میں تین صورتوں کا بیان ہے-
(۱)علم کی حالت میں تاویل کے ساتھ انکار (۲)لاعلمی کی حالت میں انکار (۳)علم کی حالت میں بلا تاویل انکار۔پہلی دوصورتوں میں حکم کفر نہیں۔تیسری صورت میں حکم کفر ہے۔
متاخرین فقہائے احناف کے یہاں پہلی صورت میں کفر فقہی کا حکم ہوگا۔باب تکفیر میں متقدمین فقہائے احناف کا وہی مذہب ہے جسے مذہب متکلمین کہا جاتا ہے۔
ضروریات دین کا انکار کفر کلامی:تاویل کے ساتھ انکار ہویابلا تاویل
ضروریات دین کا مفسر انکار،یعنی صریح متعین انکار کفر کلامی ہے۔ خواہ تاویل کے ساتھ انکار ہو، یا بلا تاویل انکار ہو۔لاعلمی کی حالت میں انکار متکلمین کے یہاں کفر نہیں۔
قال النووی الشافعی:(فاما الیوم فقد شاع دینُ الاسلام واستفاض فی المسلمین عِلمُ وُجُوبِ الزَّکَاۃِ حَتّٰی عَرَفَہَا الخاص والعام واشتر ک فیہ العالمُ والجاہلُ فَلَا یُعذَرُ اَحَدٌ بتاویل یتأول فی انکارہا۔
وکذلک الامر فی کل من انکر شیءًا مما اجمعت الامۃ علیہ من امور الدین اذاکان علمہ منتشرًا کالصلوات الخمس وصوم شہررمضان والاغتسال من الجنابۃ وتحریم الزنا والخمر ونکاح ذوات المحارم ونحوہا من الاحکام-اِلَّا اَن یکون رَجُلًا حدیثَ عہد بالاسلام وَلَا یَعرِفُ حدودَہ فانہ اذا اَنکَرَ منہا شَیءًا جَہلًا بہ لم یَکفُر)
(شرح النووی علیٰ مسلم: جلد اول:ص39)
توضیح:لاعلمی کی حالت میں کسی ضروری دینی کا تاویل کے ساتھ یابلا تاویل انکار کر دے تومتکلمین کے یہاں حکم کفر نہیں،لیکن جب اس کویقین کے ساتھ معلوم ہوجائے کہ یہ ضروریات دین میں سے ہے،تواس پر اس کوماننا لازم ہے،ورنہ خارج اسلام قرار پائے گا۔
اسی طرح جو علم کی حالت میں کسی ضروری دینی کا مفسرانکار کرے تووہ متکلمین کے یہاں بھی کافر ہے۔خواہ تاویل کے ساتھ انکار کرے،یا بلاتاویل انکار کرے۔تاویل کا اعتبار ضروریات اہل سنت میں ہوتا ہے۔ضروریات دین میں تاویل کا اعتبار نہیں۔امام نووی کے قول (ُ فَلَا یُعذَرُ اَحَدٌ بتاویل یتأول فی انکارہا)کا یہی مفہوم ہے۔
قال الہیتمی:(ان انکار المجمع علیہ المعلوم من الدین بالضرورۃ کفر-کبیرۃ کان او صغیرۃ)(الاعلام بقواطع الاسلام: ص209-مکتبہ شاملہ)
توضیح: ضروری دینی کا انکار کفر ہے۔اگر کسی گناہ کبیرہ یا گناہ صغیر ہ کا گناہ ہونا ضروریات دین میں سے ہوتو اس کا منکر کافر ہے۔
قال التفتازانی:((واستحلالُ المعصیۃ)صَغِیرَۃً کَانَت اَو کَبِیرَۃً (کفرٌ)اِذَا ثَبَتَ کونُہَا مَعصیۃً بدلیل قطعی) (شرح العقائد النسفیہ: ص167)
توضیح:جس کا معصیت ہونا دلیل قطعی سے ثابت ہو، اس کا انکار کفر ہے۔ باب اعتقادیات میں دلیل قطعی کی دوقسمیں ہیں:قطعی بالمعنی الاخص اور قطعی بالمعنی الاعم۔
قطعی بالمعنی الاخص دلیل سے جو ثابت ہو، وہ ضروری دینی ہے۔اس کا انکارکفر کلامی ہے، خواہ تاویل کے ساتھ انکارہو، یا بلاتاویل انکار ہو۔قطعی بالمعنی الاعم دلیل سے جوثابت ہو، وہ ضروری اہل سنت ہے۔ اس کا انکار اگر تاویل کے ساتھ ہوتو متکلمین کے یہاں کفر نہیں۔اگر اس کے قطعی ہونے کا علم قطعی ہو، پھر بلا تاویل اس کا انکار کرے تویہ استخفاف بالدین اور کفر عنادی و کفر کلامی ہے۔علامہ تفتازانی کی عبارت پرعلامہ خیالی کا حاشیہ درج ذیل ہے۔
قال الخیالی:((قولہ اذا ثبت کونہا معصیۃً بدلیل قطعی)ولم یکن المُستَحِلُّ مُوَوِّلًا فی غیر ضروریا ت الدین-فتاویل الفلاسفۃ دلائلَ حدوثِ العَالَمِ ونحوہ لَا یَدفَعُ کُفرَہُم)(حاشیۃ الخیالی: ص149)
توضیح:علامہ خیالی کے قول (ولم یکن المستحل مؤولا فی غیر ضروریات الدین)کا مفہوم یہ ہے کہ دلیل قطعی سے ثابت ہونے والا امردینی اگر غیر ضروریات دین ہو تو تاویل کے ساتھ اس کا انکار کفر کلامی نہیں۔ اگر ضروریات دین میں سے ہوتو تاویل کے ساتھ انکار بھی کفر کلامی ہے، پس فلاسفہ جو حدوث عالم کے دلائل کی تاویل کرکے دنیا کوقدیم بتاتے ہیں تو اس تاویل کے باوجود وہ کافر ہیں،کیوں کہ دنیا کا حادث ہونا ضروریات دین سے ہے۔
قال الملا عبدالحکیم السیالکوتی:(قولہ:(ولم یکن المستحل- الخ)یعنی اَنَّ تَکفِیرَ ہٰذَا مُتَصَوَّرٌ بِوَجہَین -اَحَدُہُمَا اَن لَا یَکُونَ مُوَوِّلًا اَصلًا-اَو یَکُونُ مُوَوِّلًا ولکن فی ضروریات الدین-وعلٰی کِلَا التَّقدِیرَینِ یُکَفَّرُ)(حاشیۃ السیالکوتی علی الخیالی: ص225)
توضیح:علامہ خیالی کی عبارت پرعلامہ عبد الحکیم سیالکوٹی نے حاشیہ رقم فرمایاکہ دلیل قطعی سے ثابت شدہ امردینی کے انکار پرمتکلمین کے یہاں دو صورت میں کفرثابت ہوگا۔
(1)پہلی صورت یہ ہے کہ منکر بلا تاویل انکار کرے۔ ایسی صورت میں وہ امر ضروریات دین میں سے ہو، یا ضروریات اہل سنت میں سے،دونوں قسم کا انکار کفرکلامی ہے۔
ضروری دینی کا انکار اس لیے کفرہے کہ ضروری دینی کا انکار تکذیب نبوی ہے۔ضروری اہل سنت کے انکارپر حکم کفر اس لیے ہے کہ بلاتاویل انکار کے سبب استخفاف بالدین ثابت ہوتا ہے۔یہ متکلمین کا مذہب ہے۔ جوکافر کلامی ہوگا،فقہا بھی اسے کافر مانیں گے۔کافر کلامی کے کفر میں اختلاف نہیں ہوتا۔یہ کفر اتفاقی وکفر اجماعی ہے۔
(2)دوسری صورت یہ ہے کہ ضروریات دین کاانکارتاویل کے ساتھ ہو،پس یہ بھی کفر ہے،کیوں کہ ضروریات دین میں تاویل کی گنجائش ہی نہیں۔
قال السیالکوتی:(قولہ:(فتاویل الفلاسفۃ-الخ)ای اذا کان عدم الکفرمشروطًا بان لا یکون مستحلہ مُوَوِّلا فی غیر ضروریات الدین- فتاویلُ الفَلاسفۃ لدلائل حدوث العالم ونحوہ مثل الجنۃ والناروالتنعیم والتعذیب لایدفع کفرَہم-لان ذلک من ضروریات الدین-والتاویلُ فی ضروریات الدین لا یَدفَعُ الکُفرَ)(حاشیۃ السیالکوتی علی الخیالی:ص225)
توضیح: کفر کی شرط یہ ہے کہ منکر،غیرضروریات دین میں تاویل کرنے والا نہ ہو۔ اس کی دوصورتیں بتائی گئیں:(۱)ایک یہ کہ بالکل ہی تاویل نہ کرے
(۲)دوسری یہ کہ ضروریات دین میں تاویل کرے، پس دونوں صورتوں میں حکم کفر ہوگا۔
فلاسفہ ضروریات دین میں تاویل کر کے اس کا انکار کرتے ہیں،پس تاویل کے باوجود ان کی تکفیر ہوگی،کیوں کہ ضروریات دین کا انکار تاویل کے ساتھ ہو،یا بلا تاویل ہو، دونوں صورت میں حکم کفرعائد ہوگا۔
قال الامام احمد رضا القادری:(فان التاویل فی الضروری غیر مسموع)(المعتمد المستند: ص180-المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح:ضروریات دین میں تاویل قبول نہیں کی جاتی ہے۔ضروری دینی کا انکار تاویل کے ساتھ ہویابلاتاویل،دونوں صورت میں حکم کفر عائد ہوگا۔
غیرضروریات میں تاویل متکلمین کے یہاں کفر نہیں
اگر غیر ضروریات دین میں تاویل کیا تو متکلمین کے یہاں کفر نہیں۔اب اس غیر ضروریات کا ثبوت جیسا ہوگا،اسی کے اعتبارسے حکم شرعی عائد ہوگا۔
ضروریات اہل سنت یعنی قطعی بالمعنی الاعم امور کا انکار تاویل کے ساتھ کیاتومتکلمین کے یہاں گمراہ اور فقہائے احناف اوراس کے مؤیدین کے نزدیک کافر فقہی ہوگا۔
اگر ضروریات اہل سنت کا بلاتاویل انکارکیا تویہ استخفاف بالدین ہے۔ استخفاف بالدین کے سبب متکلمین کے نزدیک بھی کفرثابت ہوتاہے،جب کہ یہ انکار قطعی بالمعنی الاخص ہو،اورتاویل بعید کی بھی گنجائش نہ ہو۔
قال الغزالی:(وَمِنَ النَّاس مَن یُبادراِلَی التَّاویل بِغلبۃ الظنون من غیر برہان قاطع-وَلَاینبغی اَن یُبَادَرَ اَیضًا اِلٰی تکفیرہ فی کل مقام-بل ینظر فیہ-فَاِن کَانَ تاویلہ فی امرٍلَا یَتَعَلَّقُ بِاُصُولِ العَقَاءِدِ وَمُہِمَّاتِ الدِّینِ فَلَا یُکَفَّرُ)(فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ: ص53)
توضیح:منقولہ بالاعبارت میں اصول دین سے ضروریات دین مراد ہیں۔اگر ضروریات دین میں تاویل کی گئی تو حکم کفر ہے۔ غیر ضروریات میں تاویل ہوتو کفر نہیں۔
تاویلات باطلہ کا حکم:
(1)ضروریات دین میں تاویل قبول نہیں۔ضروریات دین میں تاویل کے ذریعہ بھی انکار ہو، یامتواتر معنی کے علاوہ کوئی دوسرامفہوم مرادلیاجائے تویہ کفر ہے۔
ختم نبوت کا مسئلہ ضروریات دین میں سے ہے۔نانوتوی نے تاویل کے ذریعہ ختم نبو کے متواتر مفہوم کا انکار کیا،پس حکم کفر مستقر ہوگیا۔
(2) ضروریات اہل سنت میں تاویل کے ذریعہ اجماعی مسئلہ سے انحراف کرنا گمرہی ہے،اوراس کو امردینی قطعی اعتقادکرکے بلاتاویل انکارکرنا استخفاف بالدین ہے۔استخفاف کے سبب کفر کلامی کا حکم ہوگا۔
امام غزالی شافعی نے بعض تاویلات کا ذکر کرنے کے بعد رقم فرمایا:
(واما مایتعلق من ہذا الجنس(التاویلات)بِاُصُولِ العقائد المہمۃ- فَیَجِبُ تَکفیر من یُغَیِّرُ الظاہر بغیر برہان قاطع-کالذی ینکر حشرَ الاجساد وینکر العقوبات الحسیۃ فی الاٰخِرَۃ بظنون واوہام واستبعادات من غیر برہان قاطع فَیَجِبُ تکفیرہ قطعًا-اِذ لَابرہانَ علٰی استحالۃ رَدِّ الاَروَاحِ اِلَی الاجساد-وَذِکرُ ذلک عظیم الضرر فی الدین فجیب تکفیر کل من نطق بہ-وہو مذہب اکثر الفلاسفۃ۔
وکذلک یجب تکفیر مَن قَالَ مِنہُم:اَللّٰہُ تَعَالٰی لَا یَعلَمُ اِلَّانفسہ- وَاَنَّہ لَایعلم اِلَّاالکلیات-فَاَمَّا الامور الجزئیۃ المتعلقۃ بالاشخاص فَلَا یَعلَمُہَا-لان ذلک تکذیب للرسول صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قَطعًا۔
و لیس من قبیل الدرجات التی ذَکَرنَاہَا فی التاویل-اِذ اَدِلَّۃُ القُراٰنِ وَالاِخبَارِ عَلٰی تفہیم حشرالاجساد-وَتَفہِیمِ تعلق علم اللّٰہ بتفصیل کل ما یجری علی الاشخاص مجاوزٌ حَدًّا لَا یَقبَلُ التَّاوِیلُ)
(فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ: ص56)
توضیح:امام غزالی کا قول (من یُغَیِّرُ الظاہر بغیر برہان قاطع)محض تاکید کے لیے ہے،ورنہ ضروریات دین کے خلاف برہان قاطع کا وجود ہی نہیں۔یہ اسکات خصم کے لیے ہے،اسی لیے بعدمیں فرمایا:(بظنون واوہام واستبعادات من غیر برہان قاطع فَیَجِبُ تکفیرہ قطعًا)
قال الغزالی:(وَلَابُدَّ من التَّنَبُّہِ لِقَاعِدَۃٍ اُخرٰی-وہی اَنَّ المخالف قد یخالف متواترًا ویزعم انہ مُاَوِّلٌ-ولکن ذکرتاویلہ لا انقدَاحَ لَہ اَصلًا فی اللسان-لَاعَلٰی بُعدٍ وَلَاعَلٰی قُربٍ-فذلک کُفرٌ وصاحبہ مُکَذِّبٌ وان کان یزعم انہ مُاَوِّلٌ-وَمثَالہ مَارَأَیتُہ فی کلام بعض الباطنیۃ -اَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی وَاحِدٌ بمعنٰی انہ یعطی الوحدۃَ وَیَخلُقُہَا-وَعَالِمٌ بمَعنٰی اَنَّّہ یعطی العلمَ لِغَیرہ ویَخلُقُ-وَمَوجُودٌبمَعنٰی اَنَّہ یُوجِدُ غَیرَہ-وَاَمَّا اَن یَکُونَ وَاحِدًا فی نفسہ وَمَوجُودًا وَعَا لِمًا عَلٰی معنٰی اتِّصَافِہ بہ فَلَا-وَہٰذَا کُفرٌصُرَاحٌ-لِاَنَّ حَملَ الوَحدَۃِ عَلٰی اِیجَادِ الوَحدَۃِ لَیسَ مِنَ التاویل فی شَیءٍ-وَلَا تَحتَمِلُہ لُغَۃُ العَرَبِ اَصلًا-وَلَو کَانَ خَالِقٌ یُسَمّٰی وَاحِدًا لِخَلقِہِ الوَحدَۃِ لَسُمِّیَ ثَلَاثًا وَاَربَعًا لِاَنَّہ خَلَقَ الاَعدَادَ اَیضًا-فَاَمثِلَۃُ ہٰذہ المَقَالَاتِ تَکذِیبَاتٌ عَبَّرَ عَنہَا بِالتَّاویلَاتِ)(فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ: ص66)
توضیح:امام غزالی کے قول(اَنَّ المخالف قد یخالف متواترًا ویزعم انہ مُاَوِّلٌ،ولکن ذکرتاویلہ لا انقدَاحَ لَہ اَصلا)سے بالکل واضح ہوگیا کہ ضروریات دین میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ضروریات دین حضوراقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام سے متواتر ہوتی ہیں۔تاویل کے ذریعہ کوئی دوسرا معنی بتانا کفر کلامی ہے۔
قال التفتازانی:(عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ مبعوثٌ الی الثقلین لَا اِلَی العَرَبِ خَاصَّۃً علٰی مَا زَعَمَ بعضُ الیہود والنصارٰی زعمًا منہم ان الاحتیاج الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انما کان للعرب خاصۃً دون اہل الکتابین-وَرُدَّ بِِمَا مَرَّ مِن اِحتِیَاجِ الکُلِّ اِلٰی مَن یُجَدِّدُ اَمرَ الشَّریعۃ-بَل اِحتِیَاجُ الیہود والنصارٰی اَکثَرُ لِاِختِلَالِ دینہم بالتحریفات وانواع الضلالات مع ادعاۂم انہ من عند اللّٰہ تَعَالٰی-وَالدَّلیل عَلٰی عموم بعثتہ وکونہ خاتم النبیین لَا نَبِیَّ بَعدَہ وَلَا نَسخَ لِشَریعَتِہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،ہوانہ ادعٰی ذلک بحیث لایحتمل التاویلَ-وَاَظہَرَ المعجزَۃَ عَلٰی وَفقِہ-وَاَنَّ کِتَابَہُ المُعجِزَقَد شَہِدَ بِذٰلِکَ قَطعًا کقولہ تَعَالٰی:(وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّاکَافَّۃً لِّلنَّاسِ)-(قُل یَا ایہا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعًا)-(قل اوحی الی انہ استمع نفرٌ من الجن)الاٰیات-(وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ)-(لیظہرہ علی الدین کلہ)) (شرح المقاصد: جلددوم:ص 191)
توضیح:(لایحتمل التاویل)سے واضح ہے کہ ضروریات دین میں تاویل کی گنجائش نہیں۔
ضروریات دین میں تاویل قبول نہیں ہوتی،اور تاویل کرنے والے پر حکم کفر عائدہوتا ہے۔ختم نبوت کا عقیدہ اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سارے انسانوں کے رسول ہونے کاعقیدہ ضروریات دین میں سے ہے۔اس میں تاویل یا انکار کفر ہے۔
قال الغزالی:(وَلَایَلزَمُ الکُفرُ لِلمُؤلِینَ مَا دَامُوا یُلَازِمُو نَ قَانونَ التَّاویلِ)(فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ:ص41)
توضیح:تاویل کی تین قسمیں ہیں: (۱)تاویل صحیح (۲)تاویل فاسد (۳)تاویل باطل۔تاویل باطل فقہا اور متکلمین کسی کے یہاں قبول نہیں کی جاتی۔
اسی طرح ضروریات دین میں تاویل قبول نہیں کی جاتی۔یہ امورتاویل کے قوانین میں سے ہیں۔ غیرضروریات دین کا انکار تاویل کے ساتھ کیا تو اس کا ثبوت جیسا ہوگا،اسی طرح حکم ہوگا۔اگر ضروریات دین کی قسم دوم (قطعی بالمعنی الاعم امور)کا انکارتاویل کے ساتھ کیا تومتکلمین کے یہاں گمراہ ہوگا،اورفقہا ئے احناف کے یہاں کافر فقہی ہوگا۔
کیا تاویل کے بعد تکفیر نہیں کی جائے گی؟
سوال:کیا تاویل کے سبب ہرقسم کا کفر ختم ہوجاتا ہے؟یا کوئی خاص کفر ختم ہوتا ہے؟
جواب:یہاں متعدد صورتیں ہیں۔
(1)اگر قطعی بالمعنی الاعم(ضروریات اہل سنت) کے قطعی بالمعنی الاعم ہونے کا علم ہے،اور علم کی حالت میں تاویل فاسدکے ساتھ اس کاانکار کیا تویہ متکلمین کے یہاں گمرہی ہے اورفقہائے احناف کے یہاں کفرفقہی ہے۔
(2)اگر قطعی بالمعنی الاعم(ضروریات اہل سنت) کے قطعی بالمعنی الاعم ہونے کا علم ہے،اور علم کی حالت میں بلا تاویل انکار کیا تویہ متکلمین وفقہا سب کے یہاں استخفاف بالدین اور کفر عنادی ہے۔انکار صریح متعین ہو، یا صریح متبین،دونوں صورت میں فقہا کے یہا ں حکم کفر ثابت ہوگا،کیوں کہ دونوں انکار فقہا کے یہاں قطعی ہے۔
متکلمین کے یہاں کفر اس وقت ثابت ہوگا جب انکارصریح متعین ہو۔
(3)ضروریات دین یعنی قطعی بالمعنی الاخص اموردینیہ کا انکار تاویل کے ساتھ بھی کرے توبھی متکلمین وفقہا سب کے یہاں کفر ہے۔اسی کوکفر اجماعی اورکفر اتفاقی کہا جاتا ہے۔دیابنہ ضروریات دین میں تاویل کرتے ہیں،اسی لیے ان سے حکم کفر ختم نہیں ہوتا۔
ختم نبوت کامسئلہ بھی ضروریات دین میں سے ہے اور تعظیم رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کا مسئلہ بھی ضروریات دین میں سے ہے۔
مسلک دیابنہ کے اشخاص اربعہ میں سے قاسم نانوتوی نے ختم نبوت کا انکار کیا۔رشید احمد گنگوہی نے اللہ تعالیٰ کی شان اقد س میں بے ادبی کی۔
رشیداحمد گنگوہی،خلیل انبیٹھوی اور اشرف علی تھانوی نے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے بے ادبی کے الفاظ استعمال کیے۔یہاں توبہ کے علاوہ دوسری کوئی راہ نہیں۔ تاویل سے کفر مزید پختہ ہوگا، ختم نہیں ہوگا۔
علمائے کرام کی بعض عبارتوں کودیکھ کربعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ضروریات دین میں بھی تاویل کی گنجائش ہے،حالاں کہ یہ نظریہ غلط ہے۔ اس قسم کی چند عبارتوں کی تشریح مندرجہ ذیل ہے۔
علامہ تفتازانی کی عبارت کی توضیح:
قال التفتازانی فی بحث عدم تکفیرالمُتَأوِّلِینَ کالمعتزلۃ والمشبہۃ وغیرہما:(ان صاحب التاویل وَاِن کَانَ ظَاہِرَ البُطلَانِ-لَیسَ بِکَافِرٍ)
(شرح المقاصد:جلددوم:ص270)
ترجمہ:تاویل گرچہ ظاہر البطلان ہو، صاحب تاویل کافر نہیں۔
توضیح:معتزلہ اورمشبہہ اوردیگر فرقے جو غیر ضروریات دین میں تاویل کرتے ہیں، اس تاویل کے سبب ان پر کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا،لیکن متکلمین کے یہاں حکم ضلالت ضرور نافذہوگا،اسی لیے ان فرقوں کوگمراہ کہا گیا۔جو لوگ ضروریات دین میں تاویل کریں، وہ یقینا متکلمین کے یہاں کافرومرتد ہیں۔ماقبل میں گزرچکا کہ ضروریات دین میں تاویل مقبول نہیں۔
علامہ تفتازانی نے بعض علما کے حوالے سے منقولہ بالا قول کوشرح مقاصدکی بحث ہفتم میں نقل فرمایا،جس کا عنوان ہے: ”المبحث السابع فی حکم مخالف الحق من اہل القبلۃ“۔
اس بحث ہفتم میں ان فرقوں کا بیان ہے جو غیرضروریات دین میں تاویل کرتے ہیں، اور اہل قبلہ میں سے ہیں،یعنی کسی ضروری دینی کے منکر نہیں ہیں۔
علامہ تفتازانی نے تحریر فرمایا:
((المبحث السابع فی حکم مخالف الحق من اہل القبلۃ)فی باب الکفر والایمان-ومعناہ ان الذین اتفقوا علٰی ما ہو من ضروریات الاسلام کحدوث العالم وحشر الاجساد وما اشبہ ذلک- واختلفوا فی اصول سواہا کمسئلۃ الصفات وخلق الاعمال وعموم الارادۃ وقدم الکلام وجواز الرؤیۃ ونحو ذلک مما لا نزاع فیہ ان الحق فیہا واحد-ہل یکفر المخالف للحق بذلک الاعتقاد وبالقول بہ ام لا؟ والا فلا نزاع فی کفر اہل القبلۃ المواظب طول العمر علی الطاعات باعتقاد قدم العالم ونفی الحشر ونفی العلم بالجزئیات ونحو ذلک-و کذا لصدور شیء من موجبات الکفر عنہ)(شرح المقاصد:جلددوم:ص269)
توضیح:منقولہ بالا اقتباس سے واضح ہوگیا کہ اس بحث میں ان لوگوں کا بیان ہے جو ضروریات دین کومانتے ہیں اور ضروریات اہل سنت ودیگر امورمیں تاویل کرتے ہیں۔ تاویل فاسد کے ذریعہ ضروریات اہل سنت کا انکار کفر کلامی نہیں،اسی لیے کہا گیا کہ صاحب تاویل کافر نہیں۔
بحرالعلوم کی عبارت کی توضیح:
علامہ بحرالعلوم عبد العلی فرنگی محلی(م۵۲۲۱ھ)نے خلافت صدیقی کے انکار پر روافض کی عدم تکفیر کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ اجماعی امور کابلاتاویل انکار کفر ہے،اسی طرح قطعی امور(ضروریات اہل سنت) کا بلاتاویل انکار کفر ہے۔
اگر اجماعی امور یاقطعی امور کا انکار تاویل کے ساتھ کیا تویہ کفر نہیں۔یہاں اجماعی امور اور قطعی امور سے غیر ضروریات دین مراد ہیں،جیسے خلافت صدیقی اجماعی اور قطعی امور میں سے ہیں،کیوں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع خلافت صدیقی پر ہے،اوراجماع صحابہ،اجماع قطعی ہے۔اس طرح خلافت صدیقی کا تاویل کے ساتھ انکار کفرکلامی نہیں،اورخلافت صدیقی کو اجماعی وقطعی مان کر بلا تاویل انکار کرنا کفر ہوگا، کیوں کہ یہ کفر عنادی اور استخفاف بالدین ہے۔ ضروریات اہل سنت کا یہی حکم ہے کہ بلا تاویل اس کا انکار متکلمین کے یہاں کفر ہے۔
بحرالعلوم فرنگی محلی نے رقم فرمایا: (وَاِنَّمَا الکُفرُ اِنکَارُ المُجمَعِ عَلَیہِ مَعَ اعترافہ انہ مجمع علیہ من غیر تأویل-وَہَل ہٰذَا اِلَّا کَمَا اِذَا اَنکَرَ المَنصُوصَ بالنص القطعی بتأویل باطل-وہو لیس کفرًا-کَذَا ہٰذَا)
(فواتح الرحموت:جلددوم:ص294-دار الکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:جس کوضروریات اہل سنت کی قطعیت کاعلم ہے،وہ تاویل فاسد کے ذریعہ اس کا انکار کرے تو کفر نہیں۔اسی طرح اجماعی امر کا تاویل فاسد کے ذریعہ انکار کفر نہیں۔
اگر اجماعی امر کا بلا تاویل انکار کرے تو یہ کفرہے،کیوں کہ یہ استخفاف بالدین ہے۔
بحرالعلوم کی عبارت میں قطعی سے ضروریات اہل سنت مراد ہیں جوقطعی بالمعنی الاعم ہوتی ہیں۔ مجمع علیہ سے وہ امر مرادہے جس پرحضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع منصوص ہو۔فواتح الرحموت میں اس مقام پر اس امر اجماعی کی بحث ہے جواجماع صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ثابت ہو۔ضروریات دین کو بھی اجماعی اورقطعی کہا جاتا ہے،لیکن یہاں وہ مراد نہیں۔
امام غزالی کی عبارت کی توضیح:
امام غزالی شافعی نے فرمایا کہ اصحاب تاویل جب تک تاویل کے قانون کی پیروی کرتے رہیں،ان پر حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔تاویل کا قانون یہ ہے کہ ضروریات دین میں تاویل نہ کی جائے۔ضروریات دین میں تاویل مقبول نہیں۔
قال الغزالی الشافعی:(وَلَا یَلزَمُ الکُفرُ لِلمُؤَلِینَ ما داموا یلازمون قانون التاویل)(التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ: ص41)
وضاحت:موجودہ سلسلہ وار مضامین میں کفر فقہی کا بیان رقم کیا جارہا ہے۔کفر فقہی کو کفر اختلافی کہا جاتا ہے۔ ان مضامین میں اس نکتہ پر توجہ دینی ہوگی کہ متکلمین کس مقام پرکفر کا حکم دیتے ہیں اور کس مقام پر ضلالت وگمرہی کا حکم دیتے ہیں۔کہا ں فقہا کے اعتبارسے حکم کفر عائد ہوتا ہے اورکہاں فقہا ومتکلمین دونوں کے اعتبارسے حکم کفر عائد ہوتا ہے۔ جب متکلمین کے یہاں کوئی کافر ہوگا تو فقہا کے یہاں یقینی طورپر کافر ہوگا۔کفر کلامی میں امت مسلمہ میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہوتا۔ کفر کلامی کوکفر اتفاقی بھی کہا جاتا ہے۔