تحریر : طارق انور مصباحی
حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز کے عہد مسعود میں برادران اہل سنت وجماعت کے مابین جیسی محبت واخوت اورسماجی وحدت وہم آہنگی تھی،ہم اسی تہذیب وثقافت کو پسند کرتے ہیں۔ تبرائی کلچر کوہم ناپسندکرتے ہیں۔
بھارت میں اہل سنت وجماعت کے درمیان تبرائی ثقافت کے فروغ میں غیر معروف افراد اوربعض بدمذہبوں نے اہم کردار نبھایا ہے۔
مشہور کہاوت ہے:”گھر ٹوٹے،گنوار لوٹے“۔
جب علما ومحققین کے درمیان علمی وتحقیقی اختلافات ہوئے تو اسے دیکھ کر غلط عناصر نے سماجی اختلاف وانتشارکی کوشش کی، اور سوئے قسمت وہ اس میں امید سے زیادہ کامیاب ہوئے۔
اس اختلاف کو ہوادینے میں ایک رافضی بھی پس پردہ نظر آتا ہے۔ ایک رافضی نے اپنے فرضی نام ”غلام غوث رضوی“کے نام سے ایک رسالہ ”اختری مذہب“شائع کیا تھا۔
انجمن تعلیمات رضا (فیض آباد:یوپی)نے اس کتاب کو شائع تھا۔رسالہ کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں ایک فریق پر ہرزہ سرائی کی گئی ہے۔تبرا بازی روافض کا آبائی ہنر ہے۔رسالہ میں اختراع وافترا،الزام تراشی وہفوات گوئی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
اسی محاذکے ایک فرد ابن الحسن بستوی نے لکھا کہ وہ محرم الحرام 1416 مطابق جون 1995میں فیض آباد پہنچا۔مؤلف سے بات چیت کی۔وجہ تصنیف دریافت کی۔
ابن الحسن بستوی نے لکھا:”مجھے مصنف کی دریدہ دہنی اوربے باکی کو دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ شاید مندرجہ بالاکتب اس کے مطالعے میں نہیں آئی ہیں،اور اس وقت میرا گمان پورے طورپر سچ ثابت ہوا جب فیض آباد میں بڑی تلاش وجستجو کے بعدانجمن تعلیمات رضا کا سراغ لگا،اوراس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی،جب معلوم ہواکہ مذکورہ انجمن رافضیوں کی ہے۔بہر حال میں بڑی دشواریوں کے بعد انجمن کے جنرل سکریٹری سے ملا۔مذکورہ کتاب کے متعلق دریافت کرنے پر موصوف نے بتایا کہ وہ کتاب میری تصنیف ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا نام غلام غوث رضوی ہے تو انہوں نے بتایا کہ غلام اور رضوی صحیح چھاپاہے،مگر غوث کے بجائے ”زین العابدین“ہونا چاہئے تھا۔میں نے پھر سوال کیا کہ آپ نے جھوٹی کتاب کی تصنیف کیوں کی؟توانہوں نے کہا کہ صحافت میرا پیشہ ہے۔ نہ مجھے مولانا ہاشمی سے لگاؤ ہے، اورنہ ہی مولانا اختررضا سے“۔(کچھوچھ کی فریب کاریاں:ص2-مطبوعہ:آسنسول)
حضرات ائمہ اہل بیت میں سے حضرت امام علی رضا بن امام موسی کاظم بن امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہم کی نسبت سے روافض بھی اپنے ناموں کے ساتھ رضوی لکھتے ہیں۔
یہ تبرائی رسالہ فیض آباد سے ایک رافضی نے شائع کیا تھا۔لکھنے والا بھی رافضی ہے اور شائع کرنے والا ادارہ بھی روافض کا ہے۔ایسی صورت میں روافض کی سازشوں کوبے نقاب کیا جاتا،تاکہ اہل سنت کا اتحاد بھی متاثر نہ ہوتا،اور غلط نظریات کا ردبھی ہوجاتا،لیکن ابن الحسن نے ایک خاص فریق کی طرف اپنی تحریروں کا رخ پھیر دیا۔اس نے اختلافی تناظر میں متعدد رسائل لکھے۔اس قسم کے رسائل نے ربط باہم کو کچل کر رکھ دیااورتبرائی ثقافت کی بنیادیں مضبوط ہوتی گئیں۔اب عوام وخواص تبرائی کلچر سے نجات پانے کوبے چین ہیں۔
تبرائی کلچر کے فروغ میں ابن الحسن بستوی نے بھی اہم کردار نبھایا۔ اس کی تین کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔(۱)تحفہ احسن(۲)کچھوچھہ کی فریب کاریاں (۳) چودھویں صدی کا سب سے بڑا فراڈ۔ اخیر کے دونو ں رسائل کے نام ہی اس کے مشمولات ومندرجات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔
یہ شخص سنی ہے یا غیرسنی،پتہ نہیں۔”ابن الحسن“اصلی نام ہے یا فرضی نام۔ معلوم نہیں۔بھارت میں ایسے ناموں کا رواج نہیں۔
بستوی نے اپنے رسالہ ”فراڈ“کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ وہ بمبئ میں کاروبار کرتا ہے۔ بستوی کی نسبت سے ظاہر ہے کہ وہ ”بستی“(یوپی)کا باشندہ ہے۔اس کے رسالہ ”فراڈ“میں ناشر کے طورپر ”انجمن دائرۃ المعارف بھونیشور:اڑیسہ:الہند“مرقوم ہے۔ دوسر ے رسالہ ”فریب کاریاں“میں ناشر کی جگہ ”ادارہ تحقیقات آسنسول مغربی بنگال“لکھا ہے۔
یہ بستی کا باشندہ ہے۔ ممبئ میں کاروبارکرتا ہے۔ اس کے رسائل نہ بستی سے شائع ہوئے،نہ ممبئ سے۔بلکہ بنگال واڑیسہ سے شائع ہوئے۔ کیا یہاں بھی کچھ فریب کاری وفراڈ ہے؟
احباب اہل سنت روافض اور غیر معروف لوگوں کے سبب غلط فہمیوں میں مبتلا ہوگئے۔
بستوی نے ”اختری مذہب“کے رد میں ”کچھوچھہ کی فریب کاریاں“ لکھی۔ جب اس نے تحقیق کرلی تھی کہ اس رسالے کا مؤلف رافضی ہے۔ناشر بھی رافضی ہے۔ مؤلف نے اقرار بھی کرلیا کہ ہمیں فریقین میں سے کسی سے کچھ تعلق نہیں،پس ایسی صورت میں روافض کی سازش کواجاگر کرنا تھا،لیکن بستوی اوراس کے امثال ونظائرنے کسی خاص فریق پر تبرا بازی کرکے ماحول کو زہر آلود بنادیا۔ ایسی غلط تحریروں نے طبقہ بندی کی راہ ہموار کی۔
جب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں تو بعض لوگ بے لگام ہوجاتے ہیں،اور بعض لوگ اس اختلاف کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔ اتحاد کی کوشش اکثر بے نتیجہ ثابت ہو تی ہے۔وہی سب کچھ یہاں بھی ہوا۔ کئی بار اتحاد کی کوشش ہوئی،لیکن ناکامی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہاتھ لگا۔
خواہ احباب اہل سنت متحد رہیں،یا مختلف طبقات میں منقسم رہیں۔بہرصورت احکام شرعیہ کی پاسداری لازم ہے۔ غیبت وچغل خوری اور عیب جوئی وبدگوئی حرام وناجائز ہے۔فریق مخالف کی غیبت وبدگوئی بھی ناجائز وحرام ہے۔خود کوگناہوں میں مبتلا کرنا کون سی عقل مندی ہے۔اعلانیہ بدگوئی اورعیب جوئی کرنے پر مجرم بحکم شرع فاسق معلن قر ار پائے گا۔
بسا اوقات جب دوفریق کے درمیان اختلاف ہوتا ہے توشرپسند عناصر اور نادان لوگ میدان میں اتر کر کچھ ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں کہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
فریق اول کے خلاف کچھ بھی ہو تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ فریق دوم کی سازش ہے۔ فریق دوم کے خلاف کچھ ہوتو یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ فریق اول کی سازش ہے۔ایسے موقع پر لوگ اپنے اوہام باطلہ کو دلیل بنا لیتے ہیں۔سبائیوں نے بھی اسی طرح فتنہ پھیلایا تھا۔
غلام بھی خلیفۃ المسلمین کا،اونٹ بھی خلیفۃ المسلمین کا،خط پر لگی ہوئی مہر بھی خلیفۃ المسلمین کی،خط کی تحریر بھی دربار خلافت کے کاتب کی تحریر کی طرح،لیکن نہ یہ خط حضرت امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھوایا تھا،نہ اپنے غلام کو بھیجا تھا،نہ انہیں اس خط کا کچھ علم تھا۔
ممکن ہے کہ مروان بن حکم نے بھی یہ سازش نہ کی ہو۔ شرعی ثبوت نہ ہونے کے سبب امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مروان پرکاروائی نہیں کی۔وہم وخیال شرعی دلیل نہیں۔خلیفہ راشد ہادی مہدی رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کے وہم کوقبول نہ فرمایا۔
کیا اس بات کا عقلی امکان موجود نہیں کہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی کے لیے سبائیوں نے ہی حضرت امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نقلی مہر بنوالی ہو؟
دربار خلافت کے غلام کو دینار ودرہم دے کر اپنا تابع فرمان کر لیا ہو؟
غلام بلااجازت اونٹ لے گیا ہو؟