آپ یہ احادیث کریمہ پڑھیں آپ کو پتا چل جائے گا یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا افضل ترین عمل ہے کیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ویسے تو یوم عاشورہ کے روزے کے حوالے سے بہت سی روایات ملتی ہیں، مگر اختصار کی خاطر چند احادیث درج ذیل ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اﷲِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ صَلَاةُ اللَّیْلِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔ (مسلم، الصحیح، 2: 821، رقم: 1163، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي)
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کی وجہ بیان کی گئی ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم الْمَدِینَةَ فَرَأَی الْیَهُودَ تَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَاءَ فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا هَذَا یَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا یَوْمٌ نَجَّی اﷲُ بَنِي إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ فَصَامَهُ مُوسَی قَالَ فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَی مِنْکُمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو دیکھا کہ عاشورے کا روزہ رکھتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ عرض کی کہ یہ اچھا دن ہے، اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کا روزہ رکھا۔ فرمایا کہ تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام سے میرا تعلق زیادہ ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا۔ (بخاري، الصحیح، 2: 704، رقم: 1900)
اور دس محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے پر دلالت یہود کی مخالفت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اگلے سال نویں محرم کو روزہ رکھنے کا پختہ ارادہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
حِینَ صَامَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ قَالُوا یَا رَسُولَ ﷲِ إِنَّهُ یَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَی فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: فَإِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اﷲُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّی تُوُفِّيَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم
جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس روزے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا اس دن کی تو یہود اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اگلا سال آئے گا تو ہم انشاء اللہ نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابھی سال آنے نہ پایا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے۔ (مسلم، الصحیح، 2: 797، رقم: 1134)
دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کے بارے میں حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صُومُوا یَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا الْیَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ یَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ یَوْمًا
عاشورے کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اس کے ساتھ روزہ رکھو۔ (ابن خزیمة، الصحیح، 3: 290، رقم: 2095، بیروت: المکتب الإسلامي)
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ عاشورے کے روزے رکھنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہود کی مخالفت میں نویں اور دسویں محرم کے روزے ملا کر رکھنا بھی سنت ہے۔
تحریر: ماریہ امان امجدی قادری گونڈوی