ازقلم : مدثراحمدشیموگہ کرناٹک
کچھ ہی دنوں میں اترپردیش میں انتخابات کا اعلان ہونےو الاہے۔اس کیلئے تمام سیاسی جماعتیں تیاریاں کررہی ہیں،لیکن ایسا لگ رہاہے کہ یوگی کی قیادت والی بی جے پی بغیر انتخابات کے الیکشن میں جیت گئی ہے اور پھر سے ایک مرتبہ بی جے پی اُتر پردیش پر راج کریگی۔یوگی پھر سے وزیر اعلیٰ بن جائیگااوروہ جمہوریت کو نچوڑنے کی رہی سہی کسربھی پوری کردیگا، کیونکہ اس کیلئے بغیر الیکشن میں بغیر زیادہ محنت کئے جیتنے کی راہیں ہموارہوچکی ہیں۔ہم اس لئے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اترپردیش میں انتخابات سے پہلے جس طرح سے مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو مضبوط دعویدار کہہ رہے ہیں اور اپنی پارٹی کے اُمیدواروں کو ہر جگہ سے اُمیدوار بنانے کی بات کہہ رہے ہیں اس سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ کسی کو ملک کی فکر نہیں ،کسی کو جمہوریت کی بقاء کی ضرورت نہیں،کسی کو اقلیتوں کے تحفظ کی فکر نہیں،کسی کو فرقہ پرستوں کو شکست دینے کی چاہ نہیں ہے،ہر کوئی اپنے آپ میں اور اپنے آپ کو طاقتور ثابت کرنےکی کوشش میں لگاہواہے۔سابقہ انتخابات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے چکر میں اصل دشمن کو ہی بھلا دیاگیاہے اوراُس شخص کو اپنا دشمن مانا گیاہے جو ہمارا دوست بھی ہوسکتاتھا۔ابھی یوپی الیکشن کیلئے لگ بھگ ایک سال باقی ہے،ایسے میں بی جے پی نے تواپنی پارٹی کی تیاریوں کا اعلان تو نہیں کیا،لیکن نئے فقیر کو بھیک کی جلدی کی طرح نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے اپنی تیاریوں کی مشعلیں جلادی ہیں۔ان میں سے بھی خصوصاً مسلم قیادت والی سیاسی جماعتوں نے قبل از وقت انتخابات کی تیاریوں کا نہ صرف اعلان کیاہے بلکہ باقاعدہ طور الیکشن کیلئے امیدواروں کی نمائندگی کا فیصلہ بھی کررکھاہے۔یہی نہیں کئی پارٹیوں نےیہ طئے کرلیاہے کہ وہ کتنے حلقوں میں اپنے امیدواروں کو کھڑا کرینگے۔کوئی کہہ رہاہے کہ ہم 100 نشستوں کے امیدوارہیں تو کوئی کہہ رہاہے کہ ہماری نمائندگی 150 نشستوں پر ہوگی۔ایم آئی ایم،مسلم لیگ،پیس پارٹی نے اعلان کردیاہے کہ وہ 100 سے زائد نشستوں پر انتخابات لڑنے جارہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیایہ سیاسی جماعتوں نے اسمبلی انتخابات کو گرام پنچایت یا میونسپل کائونسل کے انتخابات سمجھ رکھاہے جواتنی ہمت کے ساتھ اعلان کئے جارہے ہیں۔یقیناً الیکشن میں نمائندگی پیش کرنا ہر سیاسی پارٹی کی حصہ داری ہے اور اسی ذمہ داری سے ان کی پہچان بنتی ہےاور ان کا وجود بحال رہتاہے۔اگر یہ لوگ الیکشن میں نمائندگی نہیں کرتے ہیں تو ان کاوجود خطرے میں پڑسکتاہے۔لیکن یہاں جن انتخابات میں حصہ لینے کی بات ہورہی ہے وہ انتخابات اپنے وجود کا مظاہرہ کرنے والے نہیں بلکہ حکومتوں کی تشکیل اور ملکوں کا مستقبل بنانے والی بات ہے۔آج تمام سیکولر پارٹیاں ایک حمام میں ننگی ہونے کیلئے تیاری کررہی ہیں،لیکن اُس وقت غوروفکر کیوں نہیں کیا گیا،جب60-50 سالوں سےکانگریس سمیت دیگر سیکولر سیاسی جماعتیں اقتدارپر تھیں۔اگر واقعی میں مسلم سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو پیش کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے ہیں تو انہیں سیدھے سمندرمیں تیرنے کے بجائے پہلے گائوں کے تالاب وندی میں تیرنے کی ضرورت ہے۔یہاں گائوں کا تالاب اور ندی سے مُراد مقامی بلدیاتی،ادارے،گرام پنچایت، تعلق پنچایت،ضلع پنچایت ،کارپوریشن کے انتخابات میں شرکت کرتے ہوئے اپنی سیاسی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن ہر سیاسی جماعت سیدھے سمندرمیں ہی تیراکی کا مظاہرہ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ہر کسی کو ایم ایل اے،ایم پی بننے کا بھوت سوارہے۔اترپردیش میں فیصلہ لینے کیلئے جو جلدبازی خصوصاً مسلم سیاسی جماعتوں کی جانب سے کی جارہی ہے وہ سراسر خودکشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔دیکھاہوگاکہ بہار و دیگر ریاستوں میں کس طرح سےجیتنے والے گھوڑے بھی چند گدھوں وخچروں کی وجہ سے شکست پاگئے تھے۔اب یوگی کو شکست دینے کیلئےمسلمان دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ تال میل قائم نہیں کرپاتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ ملک میں اگلی حکومت فرعون کی نہیں بلکہ دجال کی ہوگی۔وقت رہتے سنبھلنا ہوگا،ورنہ ہماری تاریخ کو ڈھونڈنا پڑ سکتاہے۔