تحریر : محمد سمیع اللہ خان
خونریزی کی طرف ابھارنے والے یہ نعرے ہندوﺅں کی ایک ایسی بھیڑ نے لگائے جس کی قیادت بھاجپا کے سابق ترجمان اور ہندوتوا لیڈر اشوینی اپادھیائے نے کی، مسلمانوں کا خون بہانے کے لیے منعقدہ یہ جلسہ راجدھانی دہلی میں ہوا، وزیراعظم نریندرمودی کے گھر سے چند میل کے فاصلے پر، انڈین پارلیمنٹ، بھارتی سپریم کورٹ اور قصرِ صدارت کےپاس، یقینًا خونریزی کے اس ہندوتوا عزم کی گونج وزیرداخلہ امیت شاہ کے کانوں میں بھی پڑی ہوگی، لیکن یہ گونج ان کے لیے تسکین کا باعث ہوتی ہے،
ابھی چند ہی روز پہلے ہریانہ میں ہندؤوں کی مہا۔پنچایت ہوئی تھی جس میں ہندو دہشتگردوں نے اعلان کیا تھا کہ مت بھولو. مسلمانو ! ہم وہی ہیں جنہوں نے تمہارے حافظ جنید کو عیدالفطر سے محض ایک روز قبل، ماب لنچنگ میں قتل کیا تھا
انہی سب کے درمیان مسلمانوں کے چند جبہ پوش لیڈران بھی راجدھانی دہلی میں جمع تھے اور بند کمرے میں اتحاد ملت کی کانفرنس کررہے تھے، کانفرنس کرنے والا ہر قائد خود کو ملت اسلامیہ کا مسیحا شمار اور قائدِ ملت بلا شرکتِ غیر ۔ قرار دیتا ہے لیکن جب نریندرمودی اور امیت شاہ سے لڑنے اور ہندو۔دہشتگردوں سے مقابلہ کرنے کا وقت آتا ہے تو یہ سبھی قائدین منظرنامے سے غائب ہوجاتےہیں اور جب مسلم قوم کے نوجوانوں کا غصہ بڑھتا ہے تو انہیں شانت کرنے کے لیے اردو میں دو۔چار لیٹرپیڈ جاری کردیتے ہیں بہت ہی محتاط الفاظ میں، کہ کہیں ہندو طبقہ ناراض نہ ہوجائے ۔
جبکہ ان قائدین پر فرض تھا کہ بھاجپا کے اقتدار میں مسلمانوں کےخلاف بڑھتی ہوئی ریاستی سطح کی زیادتی اور ہندوتوا دہشتگردی میں اتنے سارے مسلمانوں کی شہادت کےبعد ، یہ لوگ راجدھانی دہلی کی سڑکوں پر پارلیمنٹ مارچ کرتے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے یہ۔نمائندگی کرتے کہ ملت پر ظلم و زیادتی برداشت نہیں ہوگی،
نریندرمودی جب اقتدار میں آیا تھا تبھی کہنے والوں نے کہا تھا کہ، گجرات میں خون کی ہولی کھیلنے والے سے امن و امان کی توقع مت کرنا بلکہ کوشش کرو کہ یہ دوباره جیت نہ پائے مگر اُس وقت ہماری قیادت کا ریزولوشن آپکو یاد ہے؟ ہماری قیادتوں نے یہ ریزولوشن پاس کیا تھا کہ، ” اب چونکہ نریندرمودی ہمارے ملک کے وزیراعظم بن چکےہیں اسلیے ان سے اختلاف کرتے وقت ہمیں ان کے منصب کا احترام ملحوظ رکھنا چاہیے اور ان کے خلاف بہت سخت تنقید نہیں کرنا ہے "
جب دوسری مرتبہ نریندرمودی بھارتی اقتدار پر قابض ہوا تو وزارت داخلہ امیت۔شاہ کے سپرد کی گئی اس وقت بھی کہا گیا کہ سرتاپا مجرمانہ ذہن و دماغ رکھنے والے سے لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کی دہائی بےمعنی ہے، میں نے بھی لکھا تھا کہ، ملکی ہوم۔منسٹری کا امیت شاہ کے کنٹرول میں جانا ملک بھر کے پولیس سسٹم میں مسلم دشمنی کے اضافے اور پولیس کی فرقہ واریت کو انگیز کرنے کا موجب ہوگا، لیکن ہمارے لوگوں نے شاہ صاحب کےساتھ تعلقات بڑھانے پر اپنا زور صرف کیا۔
اب یہ دیکھیے کہ گجرات میں ننگا ناچ کھیلنے والی جوڑی نے دہلی میں گزشتہ سالوں ایک خونچکاں مسلم۔کش فساد کروایا اور اب مزید کی تیاری میں ہے، پارلیمنٹ آف انڈیا کےپاس مسلمانوں کے قتلِ عام کے مرکزی سلوگن کےساتھ جلسہ کرنا بھلا اور کس امر کی پیشنگوئی ہوسکتی ہے؟ جس کے آرگنائزر اور بھاجپائی نسبت رکھنے والے لیڈران ناصرف آزاد ہیں بلکہ بدنام زمانہ دہلی کی دنگائی پولیس انہیں بچانے میں مصروف ہے ۔
دنیا میں کہیں بھی کوئی دہشتگردانہ واردات ہوتی تو سب سے پہلے ہندوستان میں مسلمانوں کی جمعیتوں اور جماعتوں کی جانب سے ان کےخلاف احتجاجی عملی کوششیں ہوتیں، جن میں ہمیشہ خود کے دفاع کا پہلو غالب رہتاتھا،
مگر یہی جمعیتیں اور جماعتیں بھارت میں ہندوتوا۔دہشتگردی پر شترمرغ بنی ہوئی ہیں، بلکہ ہندوتوا دہشتگردی کی حقیقت کو صراحت سے بیان تک کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جبکہ ہر دوسرے دن یہ دہشتگردی انہی کی قوم پر جسمانی یا ذہنی حملہ کررہی ہے
دوسری طرف، ہندو۔قوم کی شرمناک حقیقت ہے، جوکہ دراصل اس کی تاریخی حیثیت کا تسلسل ہے، مسلمان تو خیر بیرونی دہشتگردی کےخلاف احتجاج میں پہل کرتے تھے مگر بھارت میں جاری ہندوﺅں کی انتہاپسندی پر اب تک کسی بھی بڑے مندر کا کوئی برہمن، پجاری، پنڈت پروہت یا ہندو مذہبی جماعت اپنی قوم کے انتہاپسندانہ تخریبی رویے کےخلاف سامنے نہیں آئی ہے، جبکہ یہ لوگ خود کو گاندھی کے اہنسا وادی / عدم تشدد والی پالیسی کے علمبردار اور شاکاہاری امن پسند کہلاتے ہیں ۔
یہ جو اتنی تیزی سے ہندوتوا۔دہشتگرد کھلے سانڈوں کی طرح بپھرتے جارہےہیں یہ بلاسبب تو ہرگزنہیں ہے دنیائے انسانیت سب سے بڑی جمہوریت کے ایک اور منظرنامے کو رقم کرنے والی ہے، آر۔ایس۔ایس نے اپنی بقاء کے لیے مسلمانوں کی قربانی طے کر لی ہے، کاش کہ، ہمارے بھولے، بھالے انٹلکچوئل لوگ سمجھیں کہ، غیرمسلموں سے اتحاد کا مطلب صرف بھاجپا اور سَنگھ سے پینگیں بڑھانا نہیں ہے، یہ تو غنڈوں اور بدمعاشوں کی ٹولی ہے جن سے کمزوروں کو نجات دلانے کے لیے مظلوموں کا اتحاد ضروری ہے، لیکن جب آپ سیاسی مفادات کے لیے ظالم کے ساتھ بھی کھڑے ہوجاتےہیں تو مظلوموں کا اتحاد کمزور پڑجاتا ہے اور ظالم کے حوصلے سڑک پر آجاتے ہیں _
ویسے اپنی ہی پولیس اور ہتھیاروں کے درمیان ہم سے رام رام کہلوانے کا خواب دیکھنے میں کوئی برائی نہیں ہے، کیونکہ تم رام رام کہلوانے کا تو۔صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہو ۔۔