زمیں، فلک ، مَہ و اَختر حسین والے ہیں
یہ کائنات کے منظر حسین والے ہیں
یزیدیت سے ہے انکار بچّے بچّے کو
ہمارے اکبر و اصغر حُسین والے ہیں
رگوں میں جوش ، لہو میں ہے اِس لیے گرمی
ہمارے حوصلہ پرور حسین والے ہیں
ہَوا سے کہہ دو کہ آجائے آندھیاں لیکر
مرے چراغ کے تیور حُسین والے ہیں
کٹا تو سکتے ہیں لیکن جھکا نہیں سکتے
ہمارے جسموں پہ یہ سَر حُسین والے ہیں
تم اپنی کثرتِ تعداد پر نہ اِتراؤ
سنو ! ہمارے بَہتَّر حسین والے ہیں
حیات وموت سے اہلِ وفا کو مت تولو
ہراِک جہان کے افسر حُسین والے ہیں
بجھے گی کیا کسی آندھی سے اِن کی شمعِ حیات
کہ نورِ حق سے منور حسین والے ہیں
یزیدِ وقت کو لاتے نہیں ہیں خاطر میں
کہ سرفروشی کے پیکر حُسین والے ہیں
غنی ہیں جرأت و صبر و رضا کی دولت سے
کوئ نہ سمجھے کہ بے زر حسین والے ہیں
مہک رہا ہے یہ گلزارِ کائنات اُن سے
جہانِ خَلق کے عَنبر حسین والے ہیں
صداقتوں کا عَلَم لےکے اٹھتے ہیں جو لوگ
وہ قائدین ، وہ رہبر حسین والے ہیں
یہ راہ ، ذروں کو سورج بنا کے رکھتی ہے
جہاں میں سب سے اُجاگر حسین والے ہیں
حسینیوں کو پلائیں گے جام ، کوثر کے
حضور ، ساقئ کوثر حسین والے ہیں
ہمیشہ نصرتِ پروردگار ساتھ میں ہے
کہ سربلندی کے مَظہر حسین والے ہیں
ہر ایک دَور میں اک تازہ آفتاب حسین
اُسی ضیا سے منور حسین والے ہیں
نگاہِ عدل سے تاریخ پڑھ کے دیکھو تم
یزیدی پَست ہیں ، برتر حسین والے ہیں
نہ ہوں گی کم کبھی ذکر حسین کی موجیں
کہ یہ وفا کے سمندر حسین والے ہیں
وہی ہیں اصل حسینی، وہی ہیں سچے غلام
جو اُنکی راہ پہ چَل کر حُسین والے ہیں
فروغِ حق میں فریدی نہ کیوں رہے مشغول
زبان و فکر کے جوہر حُسین والے ہیں
ازقلم : سلمان رضا فریدی صدیقی مصباحی، بارہ بنکوی،مسقط عمان