از قلم جنت رمشا یاسین
میں کیوں نہ کہوں کہ محبت خدا ہے۔
جو سجدے میں روئے وہ محوبِ خدا ہے۔
کون کہتا ہے محبت ماردیتی ہے۔
جو خلیلِ خدا ہو اسے سنواردیتی ہے۔
میں کیوں نہ کہوں کہ محبت خدا ہے۔
جو سجدے میں روئے وہ محبوبِ خدا ہے۔
ہر سو مجھے کہیں سے یہ آتی ہے صدا۔
ہے کوئی جو مجھ سے مانگے دعا؟
میں کیوں نہ کہوں کہ محبت خدا ہے۔
جو سجدے میں روئے وہ محبوبِ خدا ہے۔
نہ ہو گَر محبت تو موت ہے زندگی۔
محبت ہے بندگی، بندگی ہے زندگی۔
میں کیوں نہ کہوں کہ محبت خدا ہے۔
جو سجدے میں روئے وہ محبوبِ خدا ہے۔
رہنے لگیں گی تیری آنکھیں خود ہی نم۔
گَر ہو تیرا دل حضورِ خدا خَم۔
میں کیوں نہ کہوں کہ محبت خدا ہے۔
جو سجدے میں روئے وہ محبوبِ خدا ہے۔
نہیں ہے غرض اسے گورے سے کالے سے۔
یونہی ہیں محبت کہ انداز نرالے سے۔
میں کیوں نہ کہوں کہ محبت خدا ہے۔
جو سجدے میں روئے وہ محبوبِ خدا ہے۔
جو کہتے ہیں پھرتے کہ محبت فضول ہے۔
کہدو انکو کہ یہ محبوبِ رسولؐ ہے۔
میں کیوں نہ کہوں کہ محبت خدا ہے۔
جو سجدے میں روئے وہ محبوبِ خدا ہے۔
ہر مشکل کہ ساتھ اس نے پیدا کی آسانی۔
یوں اندھیرے کو بخشی روشن فراوانی۔
میں کیوں نہ کہوں کہ محبت خدا ہے۔
جو سجدے میں روئے وہ محبوبِ خدا ہے۔
غرض سے آتی ہے تجھے یاد خدا کی۔
یہ نہیں ہے وفا، خدا دیتا ہے گواہی۔
میں کیوں نہ کہوں کہ محبت خدا ہے۔
جو سجدے میں روئے وہ محبوبِ خدا ہے۔