رشحات قلم : محمد شوقین نواز شوق فریدی
دین کا ڈنکا بجایا حضرتِ شبیر نے
ظلم کو جڑ سے مٹایا حضرتِ شبیر نے
ہم تو اپنی ایک انگلی بھی کٹا سکتے نہیں
دین حق پر سر کٹایا حضرتِ شبیر نے
کربلا میں دے کے خطبہ عظمت اسلام پر
حُر کو دوزخ سے بچایا حضرتِ شبیر نے
سچ تو یہ ہے کربلا کی سر زمیں پر پہلی بار
پانی کو پانی پلایا حضرتِ شبیر نے
صبر ہے اتنا کہ اپنے نوجواں بیٹے کا بھی
لاش کاندھے پر اٹھایا حضرتِ شبیر نے
عظمت دین محمد کی بقا کے واسطے
اپنا سب کچھ ہے لٹایا حضرتِ شبیر نے
کربلا کی سر زمیں پر بھوکے پیاسے رہ کے بھی
سر کٹا کر دیں بچایا حضرتِ شبیر نے
کربلا میں شوق عاصی جانتا ہے دو جہاں
کیا بچایا کیا لٹایا حضرتِ شبیر نے