ازقلم : ذکی طارق بارہ بنکوی
چشمِ رحمت ہو غموں نے ہے کیا حملہ حسین
اے مرے رہبر مرے قائد مرے آقا حسین
لا دو راہِ راست پر سرکارِ طیبہ کے طفیل
کاروانِ ایماں ہے میرا بہت بھٹکا حسین
آپ ہی تو کلمہء طیب کے ٹھہرے پاسباں
آپ کے سر ہی بقائے دیں کا ہے سہرا حسین
ہم تو سچا عشق بھی تم سے نہیں کر پائے ہیں
اور تم نے ہم سبھی کو خون دے ڈالا حسین
آپ کے غم میں یونہی روتے رہیں گے عمر بھر
قبر کی ظلمت ہے ہم کو پُر ضیا کرنا حسین
آپ کے مدِ مقابل آ کے مٹ بیٹھا یزید
کاش کے وہ جان لیتا آپ کا رتبہ حسین
تشنگی تھی زخم تھے فاقہ تھا اور ہجرت بھی تھی
کون سا غم تھا نہ جس کو آپ نے جھیلا حسین
کوئی بھی حالات ہوں کیسا بھی دور آئے "ذکی”
میرے ہونٹوں پر رہے گا یا علی اور یا حسین