ازقلم : عاصی محمد امیر حسن امجدی
بزمِ ہستی چھوڑ کر وہ طیب و طاہر گیا
پاسبانِ دین و ملت حامی و ناصر گیا
جس سےتھےبے چین دل پاتےسکوں،آنکھیں قرار
سب کو روتا چھوڑ کر وہ جانبِ قادر گیا
ذات سے جس کی تھی بزمِ واحدی میں رونقیں
پر ضیاء پر نور پر رونق جو تھا نادر گیا
جس کی شیریں گفتگو تھی پر اثر مسحورکن
ہاں وہ ذی شیریں تکلم، حق بیاں ،ساحر گیا
ہر گھڑی شکرِ خدا میں جو رہے رطب اللسان
شکرِ منعم کرنے والا ہاں! وہی شاکر گیا
مرضیِ مولیٰ پہ جو راضی رہے صابر رہے
پیکرِ صبر و تحمل تھا جو وہ صابر گیا
ہجری سن چودہ سوتینتالیس میں سہ شنبہ کےدن
سات/ تاریخِ محرم کو میرا طاہر گیا
حسنِ صورت حسنِ سیرت کے وہ تھے مالک شہا
مردِ حق مردِ قلندر ذاکرِ وافر گیا
تھی عنایت کی نظر جن کی ہر اک جانب اٹھی
وہ کرم فرماں، ہمارا ناظر و باصر گیا
دل ہے گریاں آنکھ میں ہیں اشکِ غم آئے امیرؔ
آپ کی رحلت سے اپنا دل گیا خاطر گیا