ازقلم : ذکی طارق بارہ بنکوی
چشمِ کرم ہو میں بھی ہوں بیمارِکربلا
سرکارِ کربلا مرے سرکارِ کربلا
اے شمر عین سجدے میں قتلِ حسین پاک
تجھ سے تو شرم کھا گئے کفارِ کربلا
اس دشتِ نے نوا کو عطا کرکے اپنا خوں
شبیر نے بنا دیا گلزارِ کربلا
دنیا میں جو نہیں تو قیامت میں ہی سہی
ہونا پڑے گا سب کو پرستارِ کربلا
دے دے خدایا سب کو ہدایت مری طرح
ہاں کھول دے سبھی پہ تو اسرارِ کربلا
اب قبر کے اندھیروں کی پرواہ کیا کریں
جب ساتھ ہے تجلئ انوارِ کربلا
آلِ نبی پہ کرتے ہوئے ظلم اور ستم
حیوان بن گئے تھے ستم گارِ کربلا
اک لب بھی تر نہ کر سکے اور ہوگئے شہید
کیسے بیاں ہو رنجِ علمدارِ کربلا
مولا ترا "ذکی” بھی ہے دیوانہء حسین
اس کو بھی ہو زیارتِ دربارِ کربلا