از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک
9986437327
کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک نکاح خوانی کے دوران قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ میں نکاح شروع کرنے جارہا ہوں اگر کسی کو دولہے سے یا نکاح سے اعتراض ہے تو فوراً بتائیں، مجلس میں سناٹا چھایا ہواتھا اتنے میں سے ایک عورت بچے کو اٹھائے ہوئے نکاح خوانی کے کمرے کے آخر سے اُٹھ کر قاضی صاحب کی طرف روانہ ہوئی، نوجوان خاتون کو دیکھتے ہی دولہن نے دولہے کے منہ پر تھپڑ رسید دیا ، دولہن کا باپ بندوق لینے بھاگا، دولہن کی ماں اسٹیج پر بےہوش ہوگئی۔ سالیاں دولہے کو کوسنے لگی اور سالے آستینیں چڑھانے لگے۔ قاضی نے بچے کو اٹھائی ہوئی خاتون سے پوچھا آپ کا کیا مسئلہ ہے؟، لڑکی بولی پیچھے سنائی نہیں دے رہا تھا۔ یہی ہے ہماری جذباتی قوم جو سوچے ، سمجھے بغیر فیصلے لے لیتی ہے۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیں کہ کسطرح سے مسلمان ، سماجی، ملی وسیاسی پہلوئوں پر فیصلے لے رہی ہے۔ نہ یہ لوگ صحیح وغلط کی نشاندہی کرنے کیلئے وقت لیتے ہیں نہ ہی صحیح ردعمل پیش کرنے کیلئے آگے آتے ہیں۔ جذبات کی رو میں بہہ کر وہ اپنا نقصان تو کرلیتے ہیں لیکن ہوش میں آکر درست فیصلے نہیں کرپارہے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی قیادت پوری طرح سے کمزور ہوتی جارہی ہے۔ اس کمزور قیادت کو نیا رخ دینے کیلئے اب نئی تدبیریں اختیار کرنی ہوںگی۔ یقیناً ہمارے جیسے لکھاریوں کے مضامین چند ایک لوگ ہی پڑھتے ہوںگے مگر اس کا اثر سب پر نہیں پڑرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کام کچھ لوگ کررہے ہیں اس کام کو اجتماعی شکل نہیں دی جارہی ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ میں مست مگن راجا بنابیٹھا ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی ایرا غیرا باجا بجا کر چلا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے پاس قیادت کی صلاحیت نہیں ہے یہ بات جھوٹ ہے اگر واقعی میں مسلمانوں کی قیادت کھوکھلی ہوتی تو سلطنت اسلامیہ آج دنیا پر 800 سال تک اورمغلیہ دور برصغیر ہند میں 800 سال تک حکومت نہیں کرتے، 400 سال تک بنواُمیہ ،فاطمی، عباسی، حکومتیں قائم نہ ہوتی، نہ ہی ایران میں آنے والاسبز انقلاب آج ایران کو طاقتور ملک بنایا ہوتا۔ دراصل یہ سب کام صرف مولوی، صحافی یا سپاہی کے ذریعہ ممکن نہیں ہوتے بلکہ ان تمام کاموں کو نوجوان نسل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنی اپنے بچوں کو یہ کہتی ہیں کہ تجھے کیا لیناہے بھاڑ میں جائے سیاست، تجھے کیا لینا ہے مٹی پڑے قیادت پر، تجھے کیا لینا ہے تو تیرا کام کر، دنیا جائے جہنم میں۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے بھی ہم ہیں اورقیادت کی کھوکھلی جڑوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے والے بھی ہم ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو جہاں پر قیادت کی ضرورت ہے وہاں وہ قیادت نہیں کررہے ہیں بلکہ یتیم خانے، مدرسے، مسجدیں ، جھنڈے کے کٹے کی کمیٹیاں،عاشور خانے کی کمیٹیاں، قبرستان کی کمیٹیاں ، درگاہ کی کمیٹیاں ، میلا د کمیٹیاںاورسب سے بڑھ کر کوئی کمیٹی ہے وہ وقف بورڈ کی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی قیادت انہیں مقامات پر گول گول گھومتی ہے۔ ہماری قیادت قبرستان ، جھنڈے کے کٹے اور مسجد کی کمیٹیوں میں ہونی نہیں چاہئے۔ جو لوگ ان اداروں سے جڑے ہوئے ہیں وہ سیاست کا رخ نہ کریںبلکہ اسی میں رہ جائیں، کیونکہ سیاست میتوں اورجھنڈوں کا تجربہ نہیں پوچھتی ہے۔ بلکہ زندوں کے مسائل، سماجی برائیاں، ملی ضروریات اورثابت قدمی پوچھتی ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کسطرح سے مسلمان حقیقی سیاسی میدان میں اترنے کے بجائے معمولی قبرستان کی کمیٹی میں شامل ہونے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ مسجد تو اللہ کا گھر ہوتا ہے ، اس گھر میں خادم کی ضرورت پڑھتی ہے لیکن یہاں تو اس کمیٹی کے صدر بننے کیلئے ہزاروں، لاکھوں روپئے بھی خرچ کرنے کیلئے لوگ بیٹھے ہیں۔ کیا ہمارے دین اسلام یہی سیکھاتا ہے کہ پیسہ پھینک صدر بن کر تماشہ دیکھ، اگر نہیں تو مسلمان کیوں سیاست اورقیادت کےاصل میدان کو چھوڑ کر اپنوں کے درمیان قبروں میں سیاست کرنے جارہے ہیں۔ بدلیں اپنی سوچ، مسجدوں ، مدرسوں اوریتیم خانوں کو ریٹائرڈ لوگوں کے حوالے کریں، نوجوان قوم وملت کی حقیقی قیادت کیلئے آگے آئیں ،کرناٹک کے سندھگی اورہانگل اسمبلی حلقوں میں مسلم امیدواروں کی شکست اسی بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان اپنوں کی قیادت پر بھروسہ نہیں کرتے، اس سوچ کو بدلنا ہوگا کہ مسلمان بھی قیادت کے قابل ہیں۔