رشحات قلم : نذیر اظہرؔ کٹیہاری
26 جنوری ایک قومی تہوار ہے جسے ہندستان کے کونے کونے میں بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، اور وطن سے اپنی الفت و محبت کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے، لیکن کیا ہمیں معلوم ہے کہ 26 جنوری کیوں منایا جاتا ہے؟ آخر اس دن بطور جشن سب ہندوستانی اپنے اپنے انداز میں خوشیوں کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟؟؟
جی ہاں! تو آئیے ہم معلوم کرتے ہیں کہ اس دن جشں کیوں منایا جاتا ہے؟، ہندوستان 15 اگست 1947 کو انگریز کے چنگل سے آزاد ہوا ، جس کے بعد 26 جنوری1950کو ہندوستان جمہوری ملک میں بدلا اور اسی دن ملک میں نیا قانون نافذ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسال 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی ملنےکےبعد ہندوستان کے لیے سب سےبڑامسئلہ یہ تها کہ ملک کادستورکیساہو؟ مذهبی ہو یا لامذهبی ؟اور صرف یہی نہیں بلکہ اقلیت واکثریت کےدرمیان حقوق کس طرح طےکئےجایئں؟ لہذا اس سلسلے میں سربرآوردہ لوگوں کی ایک اہم میٹنگ منعقد کی گئی جس میں تقریبا ملک کے مختلف حصے سے تشریف فرما 30 نمائندے شریک ہوئے جن میں سر فہرست بھیم راو امبیڈکر ، سنجے فاکے، جواہر لعل نہرو، أبو الکلام آزاد، چکروتی راج گوپال، راجندر پرساد ،سندیپ کمار پٹیل، نینی رنجن گھوش، سروجنی نائیڈو ، وغیرہ کے نام نمایاں ہیں ، یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے مل جل کر قانون بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اور انہی کی جاں گسل محنتوں کے بعد 26 جنوری 1950 کو یہ قانون بن کر تیار ہوا، اور اسی دن نافذ بھی ہوا۔
اس ملک کے قانون نے سب کو برابر جینے کا حق دیا ہے، کسی پر کوئی زیادتی نہیں، کسی کی کوئی حق تلفی نہیں ، بلکہ ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں سب بھائی بھائی کا درس دیا ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ آج اس وطن عزیز کو کسی کی نظر لگ گئی کہ بد امنی و بے چینی بڑھتی جا رہی ہے، اور کرپشنس و فسادات کا ایسا ماحول بن گیا ہے جسےدیکھ کر دل دہل اٹھتا ہے ، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، اور بے اختیار آنکھیں ماقبل کی اس پر امن فضا کو تلاش کرنے لگتی ہیں جسے شاعر اجمل سلطانپوری نے اس طرح بیان کیا ہے :
مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
مجھے ہے وہ لیڈر تسلیم
جو دے یہکجہتی کی تعلیم
مٹاکر کنبوں کی تقسیم
جو کر دے ہر قالب اک جان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
واقعی افسوس ناک مرحلہ ہے کہ وہ ہندوستان جس میں ہر کوئی امن و چین سے رہتا تھا آج اسی ہند میں ایسا ماحول ہے کہ ہندو مسلم کے نعرے نلگ رہے ہین ، ہر طرف مذہب کے نام پر قتل و خون ریزی کا عجب سماں ہے اور بطور خاص مسلمانوں کو وطن کے غدار کہہ کر وطن سے نکالنے کی دھمکیوں پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں ، حالاں کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں سب سے زیادہ قربانیاں مسلمانوں نے دی ہیں ۔
سچ کہا ہے کسی شاعر نے
جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی
اب یہ کہتے ہیں ہم سے یہ اہل_چمن
یہ ہمارا چمن ہے، تمہارا نہیں
کس قدر تعجب خیز بات ہے کہ جنکاجنگ آزادی میں کوئی رول نہیں، وطن کی تعمیرمیں کوئی کردارنہیں بلکہ انکے سروں پر بابائے قوم گاندھی جی کاخون ہے،جسکی پیشانی پرمذہبی تقدس کوپامال کرنےکاکلنک ہے اورجسکےسروں پرہزاروں فسادات، لاکهوں بےقصورانسانوں کےقتل کا گناه ہے ایسے مجرموں کا کہنا کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں، انہوں نے ہندوستان کو کیا دیا ؟ تو ایسے لوگ اس حقیقت کے مصداق ہیں کہ اگر دن میں چمگاڈر کو نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟ اگر انہیں معلوم نہیں تو تاریخ کی ورق گردانی کرے ، تاریخ سچ بتائے گی کہ آزادی کی لڑائی شروع کرنے والا مسلمان ہی تھا،
انگریز کو للکارنے والا ٹیپو سلطان مسلمان ہی تھا
جنگ میں قیادت کرنے والے محمود الحسن مدنی مسلمان ہی تھا
تحریک آزادی میں پیش پیش رہنے والے مولانا ابو الکلام آزاد مسلمان ہی تھا۔
ہندستان کا ترانہ لکھنے والے علامہ اقبال مسلمان ہی تھا
اس ملک کو تاج محل و لال قلعہ دینے والے شاہ جہاں مسلمان ہی تھا
الغرض اس ملک کو آزاد کرانے میں مسلمانوں کا زبردست کردار رہا ہے جسے تاریخ کبھی بھولا نہیں سکتی ، یہ الگ بات ہے کہ عصبیت کے شکار لوگ عمدا اپنے دریچہ ذہن سے اس کردار کو نکال دے ۔ لیکن حقیقت یہی کہ
پتہ پتہ بو ٹا بو ٹا حا ل ہما ر ا جا نے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
حاصل کلام یہ ہے اس ملک کو آزاد کرانے میں سبھی کا خون شامل ہے ، سچ کہا ہے مشہور کلاسیکی شاعر ڈاکٹر راحت اندوری صاحب نے :
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اس ملک میں ہر شہری کے حقوق برابر ہیں، کوئی کسی کی حق تلفی نہیں کر سکتا ہے، اور نہ کوئی کسی کو اس ملک سے باہر نکالنے کا ادھیکار رکھتا ہے، اس لیے ہر کوئی خود چین سے رہے اور دوسروں کو رہنے دے ، امن و آشتی کو بڑھاوا دے، ظلم و بربریت اور فرقہ پرست عناصر کی بیخ کنی کرے ، یہی جمہوریت کی پہچان ہے یہی لوک تنتر کی شان ہے ، یہی 26 جنوری کا پیغام ہے،
لہذا اب ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ فسادات ، چیرہ دستیاں ، ظلم وزیادتی کا خاتمہ کرکے امن وامان کو بحال کرے، تاکہ ہر شخص چین و سکون سے اپنی زندگی گزار سکے ،
مل کے سب امن و چین سے رہیئے
لعنتیں بھیجئیے فسادوں پر
ہبدوستان 15 اگست1947 کو آزاد ہوا
9 دسمبر کو قانون سازکمیٹی بنی ،بھیم راو امبیڈ کر جی میر مجلس بنے-
26 نومبر 1949 کو مکمل تیار ہوکر اراکین کے دستخط کے ساتھ دستور پاس ہو گیا-
24 جنوری 1950 کو حتمی شکل دے دی گئی –
26 جنوری 1950کو اس کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا – اور اسی دن یوم جمہوریہ قرار پایا
آپ نے لکھا ہے 26 جنوری کو ہی تیار ہوا اور اسی نافذ ہوا
اسے درست فرمالیں ،یہ ساری معلومات نیٹ میں موجود ہیں ،
باقی کوشش اچھی کی ہے آپ نے – کٹیہار میں کہاں گھر ہوا،ابھی کہاں کیا کرتے ہیں ،مناسب ہو تو لکھ دیں