ازقلم: محمد محمود اشرف قادری مصباحی
قادری نگر، سوتیہاراٹولہ، سیتامڑھی، بہار
محب اعلیٰ حضرت، علامہ مولانا عبدالرحمٰن سرکارمحبّٰی پوکھریروی، بہاری علیہ الرحمۃ والرضوان ایک کثیرالجہات شخصیت کانام ہے۔جومتحرک وفعال،بیدارمغز،دین وسنیت کے فروغ واستحکام کے سلسلے میں ہمیشہ تیار اور علمی وروحانی دنیا آباد کرنے والی عظیم ذات تھی۔
ان کے عظیم کارنامے مختلف سمتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔انھوں نے کئی محاذوں پر دین وسنیت کی مثالی خدمات انجام دی ہیں۔مختلف موضوعات پر کئی ایک رسائل تحریر فرماۓ ہیں۔ لیکن ذیل میں ان میں سے صرف تصنیفی خدمات کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے:
آپ کی ایک کتاب بنام "نورالھدی فی ترجمۃ المجتبی” ہے۔ یہ کتاب سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی سیرت و شخصیت کے موضوع پر ہے ۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ حضرت محبی کے زمانے میں وہابیت اور غیر مقلدیت کافتنہ بہت ہولناک شکل اختیار کر چکاتھا اور پوری سنی آبادی اس سے متاثر ہورہی تھی۔اسی فتنہ سے دنیائے سنیت کو محفوظ کرنے کے لیے اور غیرمقلدین کا وافی وشافی جواب دینے کے لیے مذکورہ کتاب تحریر فرمائی۔
تمسک اقوی بأحادیث نبی الأنبیاء:
یہ کتاب بھی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک ومذہب کی حمایت میں لکھی گئی ہے۔اس میں قراءت خلف الامام،رفع یدین اور آمین بالجہر کے جائزومستحسن کہنے والوں کاردبلیغ کیاگیا ہے۔
الجواب المستحسن فی ردھفوات المرتضی حسن:
یہ وہ کتاب ہے جس میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے دیوبندی المسلک مولوی مرتضٰی حسن کارد کیاگیاہے۔جس کا پس منظرطویل عبارات کامقتضی ہے۔
انفع الشواھد لمن یخرج الوھابین عن المساجد:
اس کتاب کاموضوع یہ ہے کہ اس دور کے غیر مقلدین تقلید کو حرام قرار دینے کی وجہ سے دین سے خارج ہیں۔
الحبل القوی لھدایۃ الغوی المعروف اثبات تقلید شرعی:
یہ کتاب بھی غیر مقلدین کے رد میں لکھی گئی ہے۔اس میں تقلید کی اہمیت وافادیت کے موضوع پر قرآن وحدیث کے حوالے سے مدلل گفتگو کی گئی ہے۔
تعلیم تفسیر محبی:
اس کاموضوع علم تفسیر ہے۔یہ تفسیر سب سے پہلے تحفہ حنفیہ پٹنہ میں بالاَقساط شائع ہوئی ۔حضرت محبی کی علم تفسیر میں مہارت ولیاقت، گہرائی و گیرائی، وسعت نظرو نکتہ بینی کس اعلیٰ پیمانے پرتھی، اس کااندازہ لگانے کےلیے ذیل میں اسی کتاب سے ایک مختصر اقتباس نقل کیاجارہاہے:
وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تفسیر لکھتے ہوئے رقم طراز ہیں:
"اور آدمی کی تین حالتیں ہیں دنیا،قبر،آخرت۔”اللہ کہنے والا”دنیا”میں،”رحمن”کہنے والا”قبر”میں”رحیم”کہنے والا "آخرت” میں شاداں وفرحاں رہے گا۔اور علمائے دین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تین ہزار نام ہیں۔منجملہ اس کے ہزار نام فرشتے جانتے ہیں،ہزار نام دوسرے پیغمبران جانتے ہیں،تین سو”توریت”میں،تین سو”زبور "میں،تین سو انجیل میں اور ننانوے نام قرآن مجید میں اور ایک نام ہے جس کو اللہ تعالیٰ خود ہی جانتا ہے۔اور ان تینوں ہزار ناموں کابازگشت انہیں تینوں ناموں بسم اللہ الرحمن الرحیم میں ہے۔اور اس کاپڑھنے والاگویا اللہ تعالیٰ کے تینوں ہزارنام پڑھتا ہے۔
(مجلہ رضاے محبی،ص:٣تا٣٤)