ایڈیٹر کے قلم سے سیاست و حالات حاضرہ

مولانا قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی کے خلاف بولنے/لکھنے والوں کے خلاف یو۔پی۔اے۔ کا مقدمہ جمہوریت کی گال پر زوردار طمانچہ

تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز، گولابازار گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیا
استاذومفتی: دارالعلوم امام احمد رضا بندیشرپور، سدھارتھ نگر

گزشتہ دنوں تری پورہ میں ہندوؤں کے فرقہ پرست عناصر کے ذریعہ مسلمانوں کی دکانوں، مکانوں اور عبادت گاہوں پر ظلم و تشدد اور پیغمبر اعظم کی شان میں گستاخی اور ان پر پولیس، میڈیا و حکومت کی خاموشی و پشت پناہی نے ہٹلر کی یادوں کو نہ صرف تازہ کیا ہے بلکہ ہٹلر کو بھی دو قدم پیچھے چھوڑنے کا کام کیا ہے۔ کھلے عام مسلمانوں پر ہورہے ظلم پر نہ تو تری پورہ کی بی۔جے۔پی۔ حکومت نے لب کشائی کی جسارت کی اور نہ ہی مرکز کی مودی حکومت نے، وشیوہندوپریشد اور بجرنگ دل کے فرقہ پرست کارکنان کی مسجدوں میں توڑ پھوڑ اور پیغمبر اعظمﷺ کی شان میں توہین پر نہ تو ملک کی زرخرید میڈیا کا رد عمل آیا اور نہ ہی پولیس انتظامیہ نے اب تک کوئی کارروائی کی۔ ابھی تک یہ بھی واضح نہ ہوسکا ہے کہ ان فرقہ پرست عناصر کے خلاف ایف۔آئی۔آر۔ لکھا بھی گیا ہے یا نہیں؟ گرفتاری کی بات ہی درکنار!!!
اوپر سے حالات کا جائزہ لینے اور مسلمانوں کی امداد کو پہنچے تحریک فروغ اسلام کے بانی حضرت مولانا قمر غنی عثمانی صاحب اور آپ کی ٹیم کو گرفتار بھی کرلیا گیا؟؟؟؟ عجیب غنڈہ گردی ہے بھائی!!! مطلب یہ ہے کہ اب مظلوموں کی داد رسی کرنے پر بھی جیل؟؟؟ ابھی تک جو معلومات سامنے آئے ہیں ان سے صرف یہی پتہ چل سکا ہے کہ مولانا اور ان کی ٹیم نے سوشل میڈیا پر تری پورہ کے ایک مسجد کی ویڈیو اپلوڈ کردی تھی جو مسجد ان بھگوا فرقہ بازوں کے آتنک کا شکار ہوئی تھی۔۔۔ حد ہے یار!!! ظلم و ستم کو دنیا کے سامنے لانے پر جیل؟؟؟ ملک میں ظلم و ستم کی نئی داستان لکھی جارہی ہے جناب! اگر قمر غنی عثمانی صاحب نے تری پورہ میں ہندو تنظیموں کے ظلم و زیادتی کی شکار مسجد کی ویڈیو بنائی ہے تو اس میں گناہ کیا ہے؟ ہاں گناہ یہ ہے کہ انھوں تمھیں ثبوتوں کو مٹاکر ان فرقہ پرست عناصر کو بچانے سے روکا ہے۔
اسی طرح تری پورہ میں ہوئے ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے والے وکیلوں اور سو سے زائد سوشل میڈیا صارفین کے خلاف یو۔اے۔پی۔اے۔ کا مقدمہ درج کرنا صرف اور صرف ثبوتوں کو مٹانے کی کوشش، فرقہ پرست عناصر کی پشت پناہی اور جمہوریت کی شیرازہ بندی ہے۔
ملک اور صوبہ کا ماحول بگاڑنے کا کام ان ہندو تنظیموں نے کیا ہے نہ کہ وکیلوں اور مولانا قمر غنی عثمانی نے۔
ہم جانتے ہیں کہ آج بھی ملک میں گنگا-جمنی تہذیب کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔ مگر صرف مٹھی بھر دہشت گردی کرنے والے یہ لوگ اور آتنک پھیلانے والی تنظیم کی غنڈ گردی سے ملک کی شبیہ داغ دار ہورہی ہے، عالمی ادارہ سے لے کر یو۔اے۔ای۔ کی شہزادی تک سب نے ملک کی جمہوریت پر انگشت نمائی شروع کردی ہے اور حد تو یہ ہے آج وہ لوگ انگشت نمائی کرنے لگے ہیں جن کی اوقات ہمارے ملک کے ایک چھوٹے صوبے کے وزیر اعلیٰ سے بات کرنے کی بھی نہیں ہے مگر صرف مٹھی بھر ان ہندو فرقہ پرستوں کی وجہ سے پورے ملک کو عالمی پیمانے پر ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے لہذا حکومت سے میری گزارش ہے کہ وہ فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے مجرمین جس میں تری پورہ کی پولیس وشیوہندوپریشد کے کارکنان اور ان کے ساتھ جو بھی اس غنڈہ گردی میں شامل تھے سب کو کیفر کردار تک پہنچائے ورنہ نہ تو تاریخ اسے بھلا سکے گی اور نہ ہی آنے والی نسلیں۔۔۔۔۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے