خیلا آرائی: فرید عالم اشرفی فریدی
تمہارے رخ سے یہ پردہ ہٹے تو اچھا ہے
اے جاں نظر جو نظر سے ملے تو اچھا ہے
ہمارے ساتھ صنم تو چلے تو اچھا ہے
چراغ عشق جو دل میں جلے تو اچھا ہے
شراب عشق پلاتے ہیں آنکھوں سے ہمدم
یہی نظارہ نظر میں رہے تو اچھا ہے
تو کیوں مچلتا ہے اس درجہ اے دل ناداں
خیال عشق میں ڈوبا رہے تو اچھا ہے
تسلی تب ہی مرے دل کو ہوگی اے جانا!
بیاں جو عشق و وفا تو کرے تو اچھا ہے
سکوں ملے گا تجھے عمر بھر کا بات یہ مان
مرے ہی ساتھ صنم تو رہے تو اچھا ہے
جو حافظہ ہو حسیں ہو اور عالمہ بھی ہو
اک ایسی شاعرہ مجھ کو ملے تو اچھا ہے
یہ چاہتا ہے فریدی کہ تیرے اور میرے
کتاب عشق میں پھول اب کھلے تو اچھا ہے