غزل

غزل: نظر جو نظر سے ملے تو اچھا ہے

خیلا آرائی: فرید عالم اشرفی فریدی

تمہارے رخ سے یہ پردہ ہٹے تو اچھا ہے
اے جاں نظر جو نظر سے ملے تو اچھا ہے

ہمارے ساتھ صنم تو چلے تو اچھا ہے
چراغ عشق جو دل میں جلے تو اچھا ہے

شراب عشق پلاتے ہیں آنکھوں سے ہمدم
یہی نظارہ نظر میں رہے تو اچھا ہے

تو کیوں مچلتا ہے اس درجہ اے دل ناداں
خیال عشق میں ڈوبا رہے تو اچھا ہے

تسلی تب ہی مرے دل کو ہوگی اے جانا!
بیاں جو عشق و وفا تو کرے تو اچھا ہے

سکوں ملے گا تجھے عمر بھر کا بات یہ مان
مرے ہی ساتھ صنم تو رہے تو اچھا ہے

جو حافظہ ہو حسیں ہو اور عالمہ بھی ہو
اک ایسی شاعرہ مجھ کو ملے تو اچھا ہے

یہ چاہتا ہے فریدی کہ تیرے اور میرے
کتاب عشق میں پھول اب کھلے تو اچھا ہے

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے