تحریر: محمد عباس الازہری
انڈین مسلمانوں کو خلوص و للہیت کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی طور پر قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے آگے آنا وقت کا اہم تقاضہ ہے اور شر پسند عناصر کی بڑھتی ہوئی شرارت کے پیشِ نظر حکومتِ وقت سے ڈائیلاگ ناگزیر ہے اور انڈین مسلم عملی طور پر ایسے ضروری مسائل کو حل کریں جو قوم کے حال و مستقبل کے لئے کارگر ہوں اور کسی بھی حالت میں ہرگز احساسِ کمتری کے شکار نہ ہوں کیونکہ ملک کے جو حالات ہیں وہ نئے نہیں ہیں اس سے بھی بُرے حالات میں ثابت کر چکے ہیں کہ انڈین مسلم وقت سے نپٹنے کا ہنر جانتے ہیں بشرطیکہ وہ جذباتیت کے بجائے مثبت اور فکری رُخ اختیار کریں تاکہ نتائج قوم و ملّت کے حق میں بہتر طور پر ظاہر ہوں اور یہ بھی واضح رہے کہ حکمراں جماعت کوئی بھی ہو حکمت کا تقاضا ہے کہ اپنے مسائل کے لئے اُن سے رابطہ کریں اور ہمہ وقت ایک ڈائیلاگ فورس تیار رکھیں اور سب سے پہلے ضروری ہے کہ انڈین مسلم اپنے مسائل طے کریں پھر اُن کی درجہ بندی کریں اور من حیث القوم برسرِ اقتدار جماعت سے جو چاہتے ہیں اس کے لیے” مکمل لائحہ عمل” طے کریں اور اپنے ایجنڈے کو واضح کریں اور حکومت تک اپنی بات پہنچانے کے لئے عمدہ طریقہۤ کار اختیار کریں اور حکومت کے اہل کاروں سے ملنے کے لئے درجہ بندی پر عمل کریں تاکہ اچھے نتائج سامنے آ سکیں اور سب سے پہلے عوامی سطح پر مشورہ مانگیں ،رائے کا احترام کرتے ہوئے اُسے ریکارڈ کریں اور یہ بھی واضح رہے کہ شعوری اعتبار سے آگے بڑھنے سے قبل ہمارا غیر جذباتی ہونا اور فکری اعتبار سے بالغ ہونا بہت ضروری ہے اس کے لیے قوم و ملت, اہل وطن کے نفسیات کا انفرادی اور اجتماعی مطالعہ شرطِ اوّلین ہے اور ہر حال میں صبر و تحمّل اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں اور مشائخ عظام ,علمائے کرام اور دانشور حضرات ایک دوسرے پر اتہام اور بدگمانی سے بچیں کیونکہ جو خواص کا ذہن ہوتا ہے وہی عوام کا مزاج بن جاتا ہے اور حکمراں جماعت کو نفسیاتی طور پر اپنے قریب کرنے کے لیے حکومت کے وہ فیصلے جو مفادِ عامہ میں لئے گئے ہیں اور بالخصوص جو مسلمانوں کے حق میں لئے گئے ہیں ان کی تعریف کریں اور عمومی معاشی پیکیج، تعلیمی سہولیات، سرکاری ملازمتوں میں آبادی کے تناسب سے جگہ اور حفظان ِصحت وغیرہ کی درخواست کریں, احساسِ کمتری،خاموشی،بدزبانی،مخاصمت، تصادم، دل ہی دل میں کڑھنا،دوسرے کو کم عقل سمجھنا ان سے ہمارے مسائل ہرگز حل نہیں ہو سکتے ہیں اس کے لیے جہاں ایک دانشور نے بات ختم کی ہے ہمیں اس سے آگے کی بات کرنے کا فن سیکھنا ہوگا,اور نفرت اور ٹکراؤ کی سیاست کے خلاف متحد ہونا ہوگا اور موجودہ دور کی سیاست مذہبی منافرت کی فضا تیار کرکے ان بنیادی اصولوں کو تباہ کرنا چاہتی ہے جن ستونوں پر جمہوریت قائم ہے اور مزید برآں موجودہ صورت حال پر ملک کے مسلمانوں اور غیر مسلم دانشوروں کی مسلسل خاموشی قابلِ تشویش اور ملک کے مستقبل کے لئے سخت نقصان دہ ہے کیونکہ کوئی بھی نظریہ، سیاست اور حکومت جو ملک کے تمام شہریوں کو برابری کی سطح سے نہ دیکھتی ہو وہ کسی بھی حال میں قابل ِقبول نہیں ہو سکتی۔منافرت اور تفریق پر مبنی نظام کسی ایک برادری کو نہیں اجتماعی طور پر پورے ملک کو نقصان پہنچاتا ہے۔کلّیہ یہی ہے کہ نفرت سے نفرت ہی جنم لیتی ہے۔نفرت کا خاصّہ ہے کہ وہ نکلتی ضرور ہے خواہ اپنوں کے خلاف نکلے۔ اورحکومت کو مسلمانوں کے خلاف کسی بھی غیر منطقی فیصلے سے باز رکھنے کے لیے اسلامی تدّبر اور حکمت ِعملی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے میں فکری تبدیلی لانی پڑے گی۔اختلاف رائے کے ساتھ صحت مند ضابطوں کے تحت آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ جاری۔۔۔۔