Haram’s earnings
ازقلم: عبدالحکیم، رانچی
دوسرے کا مال دھوکے سے کھانا ناجائز اور حرام ہے، شریعت نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے، بے شمار آیات اور احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔
قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو،
درج ذیل آیت کی روشنی میں پتہ چلا کہ ایک دوسرے کے مال کو دھوکے، فراڈ اور باطل طریقے سے کھانا حرام ہے، لہذا جس طرح آپ بیان کر رہے ہیں اگر ویسا ہی ہے تو پھر آپ کے کزن نے آپ کا مال دھوکے سے کھایا جو اس کے لئے حرام اور ناجائز ہے۔ دین اسلام کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی اجازت نہیں دیتا۔ اور یہ سارے امور حرام ہیں۔ حرام کمائی والے کا ہے تو اس میں یہ تفصیل ہے :
1۔۔ اگر اس شخص کی آمدنی خالص حرام ہو، اور وہ ا پنی اس متعین حرا م آمدنی سے کھانا کھلائے یا ہدیہ دے تو جان بوجھ کر ایسے شخص کا کھانا کھانا جائز نہیں ہے۔
2۔۔ اگر اس شخص کی آمدنی خالص حرام ہو، لیکن وہ اپنی اس حرام آمدنی سے کھانا کھلانے کے بجائے کسی دوسرے شخص سے حلال رقم قرض لے کر کھانے کا انتظام کرے، تو ایسے شخص کا کھانا کھانا جائز ہے۔
3۔۔ اگراس شخص کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی ، اور دونوں آمدنی جدا جدا ہوں، تو ایسی صورت میں اگر وہ حرام آمدنی سے کھانا کھلائے تو اس کا کھانا ، کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر حلال سے کھانا کھلائے تو پھر اس کاکھانا، کھانا جائز ہوگا 4۔۔اگراس شخص کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی ہو، اور یہ دونوں قسم کی آمدنی اس کے پاس اس طرح مخلوط ہو کہ ایک آمدنی کو دوسری آمدنی سے ممتاز کرنا مشکل ہو، لیکن حلال آمدنی کی مقدار زیادہ ہو اور حرام آمدنی کی مقدار کم ہو تو ایسی صورت میں اس کا کھانا کھانے کی گنجائش ہے، لیکن اس صورت میں بھی اگر اجتناب کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
5۔۔اور اگر اس شخص کی آمدنی حلال اور حرام سے مخلوط ہو لیکن آمدنی کی اکثریت حرام ہو تو اس صورت میں اس کا کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا