مذہبی مضامین

مسئلۂ لا أدری: ایک تحقیق

تحریر: عبدالسبحان مصباحی
استاذ: جامعہ صمدیہ پھپھوند شریف،ضلع:اوریّا۔ یو پی

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر ہمارے نبی محمد رسول اللہﷺ تک تمام انبیا ورسل علیہم السلام انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے، اللہ نے سب کے آخر میں ہمارے نبی ﷺکو مبعوث فرمایا، آپ آخری بنی ورسول ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی ورسول نہیں ہو سکتا۔ اللہ نے آپﷺ پرقرآن کریم نازل فرمایا، اس کے ذریعے آپ نے لوگوں کو دعوت وتبلیغ دین پیش فرماکر نبوت ورسالت کے اہم فریضے کو بخوبی ادا فرمایا۔ آپﷺ کے بعد اس اہم ذمہ داری کو صحابہ،تابعین،تبع تابعین اورعلمائے امت نے ادا کیا۔
ارشاد و تبلیغ کا ایک طریقہ سوال وجواب ہے۔ یعنی جس چیز کا علم نہ ہو اس کے بارے میں ارباب علم وفن کی طرف رجوع کرنا۔
اس عالم رنگ و بو میں ایسے نابغۂ روزگار افراد ورجال نے جنم لیا جو سلطنت علم کے مسلم الثبوت بادشاہ ہیں، جن کی علمی گہرائی وگیرائی کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں۔جن کی نگاہِ کیمیا اثر نےلاکھوں،کروڑوں تشنگان علم وفن کو سیراب کیا، جن کے در کی جبیں سائی وقت کے بڑے برے دانشوروں نے کی۔ جن کے ناخنِ ادراک میں ”لا ینحل مسائل“ کا حل تھا۔ جو بیک وقت علم ظاہر وباطن کے ایسے حسین سنگم اورمجمع البحرَین تھے، جہاں ہر تشنہ لب کو سیرابی وآسودگی کی دولت گراں مایہ ملتی تھی۔ جو رسول اللہﷺ کے سچےو حقیقی نائبین ووارثین تھے۔جو علم وفضل میں شہرۂ آفاق ،معقولات میں بحر زخار،منقولات میں دریائےنا پیدا کنار،فقہ وروایت میں امیر المؤمنین اور سلطنتِ قرآن وحدیث کے مسلّم الثبوت مجتہدین تھے۔ وہ حضرات جلوت وخلوت،سفر وحضر، ہر آن ، ہر مکان میں علوم وفنون کے ایسےجبل شامخ تھے، جن کی رفعت وبلندی کے سامنے ہر چیز پست وہیچ ہے۔ جن کی علمی شہرت مسلم ہے۔ ان مقدس وپاکباز نفوس کا جس نے بھی زمانہ پایا وہ بھی علم وحکمت کے لا زوال خزانوں سے مالامال ہوگیا۔{کثراللہ أمثالہم} مگر اس کے باوجود بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں انہوں نے ”لا أدری“ یا ” لا أعلم“ فرماکر ” لاعلمی“ کا اظہار فرما دیا۔
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے سماج و معاشرہ میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے کہ اگر ان سے کچھ پوچھا جائے تو لب کشائی ضرور کرتے ہیں خواہ اس چیز کا انہیں علم ہو یا نہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کا یہ معمول بن گیا ہے کہ”اظہار لاعلمی“ کو بہت بڑا عیب اور اپنی تنقیصِ شان سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے بلکل خلاف ہے کہ جس چیز کا علم نہ ہو اس کے بارے میں سکوت وخاموشی یا اظہار لاعلمی کوئی نقص وعیب نہیں بلکہ اس سے شخصیت میں نکھار آتا ہے۔ "اظہار لاعلمی” کِبْر وتکبُّر ،تعلِّی وترفّع جیسی مذموم صفات کو یکسر ختم کرکے شخصیت سازی اور علمی ترقی کا بہترین پلیٹ فورم فراہم کرتا ہے۔ جس کے ذریعے ایک علم دوست انسان وہ اعلیٰ مراتب ودرجات حاصل کر لیتا ہے جن کے عُشر عشیر کو بھی کوئی دوسرا حاصل نہیں کر سکتا۔اوربعض حضرات نادانی میں سوال کا غلط جواب دے کرجہاں ایک طرف خود کا نقصان کرتے ہیں، وہیں دور حاضر کے خطبا،ائمہ اور علما کی بے احتیاطی اور کوتاہیوں اوردشمنانِ اسلام کے غلط پروپیگنڈہ کی وجہ سے علمائے کرام کا تشخص ووقار، عامۃ المسلمین کی نگاہوں سے برابر گرتا چلا جا رہا ہے۔ تعجب اس پر ہے کہ عام مسلمان، جعلی درویشوں، ڈھونگی باباؤں اور بے شرع پیروں فقیروں کی طرف مائل و راغب ہوکر اُن کے مرید ومعتقد بنتے چلے جا رہے ہیں اور یوں اپنے حقیقی رہنماؤں یعنی علمائے کرام سے متنفر وبرگشتہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔اس پر فتن، پر آشوب دور میں علمائے کرام کی دینی، علمی، اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اُنہیں جس سوال کا جواب معلوم نہ ہو اپنی ” لا علمی کا اظہار“ کرکے کسی سنی عالم و مفتی کی طرف رہنمائی کردیں۔ یاد رہے معذرت طلب کرنا کوئی نقص وعیب یا برائی کی بات نہیں ہے۔ ہاں نقص و عیب تو تب ہے جب مسئلہ غلط بتا دیا جائے۔
چنانچہ سر دست ہم چند حقائق و معارف پیش کر رہے ہیں جن میں قرآن وحدیث اور اسلافِ امت کے حوالے سے ہم یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش و سعی کریں گے کہ کسی چیز کا علم نہ ہو تو ” لا أدری“ یا ”لا أعلم“ کہنے میں کوئی ننگ وعار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ علم نہ ہونے کی صورت میں” اللہ ورسولہ أعلم“،”واللہ أعلم، لا أعلم، لاأدری“ اور ”لاعلم لنا“ وغیرہ جیسے جملے قرآن وحدیث اور علمائے اسلام کی بولی بولنا ہے۔ جبکہ ” اظہارِ لاعلمی“ کو نصف علم سے تعبیر و بیان کیا گیا ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ جس شخص سے سوال کیا جائے تو وہ سب سوالوں کا جواب دے دے ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ چیزوں کا اسے علم وادراک نہیں ہوتا جبکہ دوسرے حضرات اس کا علم رکھتے ہیں۔
امام قاسم سے اسی بابت سوال ہوا تو فرمایا: بے شک اللہ کی قسم ہمیں ہر اس چیز کا علم نہیں ہوتا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہو۔اور اگر ہمیں علم ہو تو ہم تم سے نہ چھپائیں اور نہ ہمارے لیے اس بات کو چھپانا جائز ہے۔

{سنن دارمی مترجم،مقدمہ، ج،۱،ص:۹۷،ملک شبیرحسن}
امام حماد سے آٹھ سوالات ہوئے تو آپ نے چار کے جوابات دیے اورباقی چار کے جوابات نہیں دیے۔
{ایضاً:ص:۱۰۱}
حضرت عُمر بن ابی زائدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام شعبی سے زیادہ کسی شخص کو ، جب اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا ہو یہ جواب دیتے ہوئے نہیں دیکھا کہ ” مجھے اس کا علم نہیں ہے۔“
{مصدر سابق:ص:۱۰۱}
حمید بن عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ {کسی سوال کاجواب دینے سے} عاجز ہونے کا اعتراف کرتے ہوئےسوال کو واپس کرنا میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں جس چیز کا علم نہیں رکھتا اس کے بارے میں اپنی طرف سے ایجاد کرکے کوئی جواب دوں۔
{ایضاً:ص:۱۰۵}
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب صاحب علم سے ایسی بات پوچھی جائے جس کا اسے علم وادراک نہیں تو وہ” واللہ اعلم“ کہنے سے شرم محسوس نہ کرے۔
{الصواعق المحرقہ مترجم، ص:۳۲۴،کتب خانہ امجدیہ،۱۴۳۴؁ھ،۲۰۱۳ء}
مزیدفرماتے ہیں کہ میرے کلیجے کو اس وقت کیا ہی ٹھنڈک پہنچتی ہے جب مجھ سے اس بات کے متعلق پوچھا جاتا ہے جسے میں نہیں جانتا تو میں کہتا ہوں ”واللہ اعلم“ اللہ بہتر جانتا ہے۔
{سنن دارمی، بتفصیل سابق،ص:۱۱۵}
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: جب تم سے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے جس کا تمہیں علم نہ ہو تو بھاگنے کی کوشش کرو۔ لوگوں نے عرض کیا : امیر المؤمنین! بھاگا کیسے جائےگا؟ فرمایا: تم یہ کہدو” واللہ أعلم“ اللہ بہتر جانتا ہے۔
ھشام بن عروہ اپنے والد عروہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا: مجھے اس کا علم نہیں۔ جب وہ چلا گیا تو فرمایا : ابن عمر نے کتنا اچھا جواب دیا ہے اس مسئلے کے بارے میں جسے وہ نہیں جانتا ۔یعنی یہ بات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق ارشاد فرمائی۔
{ایضا،ص:۱۱۶}
جب کفار قریش حضور نبی اکرمﷺپر تہمت لگانے میں خائب وخاسر اور نامراد ونا کام ہوئے توآپﷺ کو بدنام کرنے کے لیے انہوں نے باہم مشورہ کرنےکے بعد ایک جماعت کفار، یہود کے پاس بھیجی تو علمائے یہود نے جماعتِ کفار سے کہا کہ حضور اکرمﷺ سے تین سوالات کرو۔ اگر تینوں کے جواب نہ دیں تو وہ نبی نہیں اور اگر تینوں کا جواب دے دیں جب بھی نبی نہیں اور اگر دو کا جواب دے دیں ایک کا جواب نہ دیں تو وہ سچے نبی ہیں۔ وہ تین سوال یہ ہیں: اصحاب کہف کا واقعہ، ذوالقرنین کا واقعہ اورروح کا حال؟ چنانچہ کفار قریش نےحضور ﷺ سے یہ سوال کیے۔آپﷺنےاصحاب کہف اور ذوالقرنین کے واقعات تو تفصیل سے بیان فرمادیے اور روح کا معاملہ ابہام میں رکھا جیسا کہ توریت میں مبہم رکھا گیا تھا۔ قریش یہ سوال کرکے نادم ہوئے۔
{خزائن العرفان،تحت آیت:” یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ“ ص:۵۴۲،دعوت اسلامی}
معلوم ہوا کہ تمام سوالوں کے جوابات دینا ضروری نہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ ہر عالم کے اوپر اُس سے زیادہ علم رکھنے والا عالم ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے، اس کا علم سب کے علم سے برتر ہے۔
{أیضا، تحت آیت: ”فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ“ ص:۴۵۸}
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو تمام اشیا وجملہ مسمّیات کا علم بطریق الہام عطا فرمانے کے بعد یہ تمام اشیا فرشتوں پر پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم اس خیال میں سچے ہو کہ کوئی مخلوق تم سے زیادہ عالم پیدا نہ کروں گا تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کیا: ”لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا“ ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تونے ہمیں سکھایا۔
{ایضا،تحت آیت: لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۔“ ص:۱۴}
معلوم ہوا کہ "اظہار لا علمی” فرشتوں کی بھی مبارک سنت ہے ۔
حدیث میں آیا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا کہ ایک علم اللہ تعالی نے مجھ کو ایسا عطا فرمایا جو آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو ایسا عطا فرمایا جسے میں نہیں جانتا۔مفسرین ومحدثین کہتے ہیں کہ جو علم حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے لیے خاص فرمایا وہ "علمِ باطن ومکاشفہ” ہے اور اہل کمال کے لیے یہ باعث فضل ہے۔
{أیضا، تحت آیت: وَ كَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا ۔“ ص:۵۶۱}
ہونا تو یہ چاہیے جس چیز کا علم نہ ہو اُس کے تئیں سکوت اختیار کیا جائے یا کسی جاننے والے کی طرف رہنمائی کر دی جائے۔ اس طرح سائل کو اپنے سوال کا تشفی، تسلی بخش جواب بھی مِل جائے گا اور رہنمائی کرنے والا اجر و ثواب کا مستحق بھی ہو جائے گا۔”إِنَّ الدَّالَّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ۔“

حضرت علی، ابو درداء، امام شعبی اورامام مالک فرماتے ہیں: کسی سوال کا جواب معلوم نہ تو ” لاعلمی کا اظہار“نصف علم ہے۔

{سیر اعلام النبلاء،کشف الخفاء،اقوال حضرت علی ،سنن دارمی، واللفظ للأخیر،ص:۱۱۶}
{حضرت علی کے علاوہ مذکورہ حضرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف بھی یہ قول منسوب ہے۔ دلیل کے لیے حوالۂ بالا ملاحظہ فرمائیں }

"لاأدری” کے "نصف علم” ہونے کی مختصر توضیح!!!

”أدری“ بلا شبہ علم وادراک ہے اور ”لا أدری“ یہ بھی علم ہے جسے نصف علم سے تعبیر وبیان کیا گیا ہے۔اس طرح علم کی دو قسمیں ہیں۔
{۱} ”أدری“ یعنی کسی چیز کا جاننا، نصف اول۔
{۲} ”لا أدری“ یعنی کسی چیز کے علم و ادراک کا نہ ہونا، نصف آخر۔
یعنی”لا أدری“ کے نصف علم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قائل ومتکلم کو اپنی لاعلمی کا علم وادراک ہوجاتاہے۔اور جس کو اپنی لاعلمی کا علم و ادراک ہوگیا تو یہ بھی ایک علم ہے کہ اُسے حقائق کی معرفت ہوئی۔ بالفاظ دیگر ”لاعلمی“ کا علم بھی علم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
عصر جدید کے مشہورمصری عالم، فضیلۃ الشیخ ، شوقی ابو خلیل اپنی کتاب ”الانسان بین العلم والدین“میں بیان کرتےہیں کہ ابراہیم بن طہمان کو لوگوں کو مسائل بتانے پر بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا تھا،ایک دن ان سے ایک مسئلہ دریافت کیاگیا تو انہوں نے فرمایا : ”لا أدری“ مجھے اس کا جواب نہیں معلوم ۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا کہ ہر ماہ تنخواہ تو اتنی اتنی لیتے ہو اور ایک مسئلہ اچھی طرح نہیں جانتے؟ آپ نے برجستہ فرمیایا: إنَّما آخُذُ عَلٰی ماأحسِنُ، وَلَو أخَذتُ عَلیٰ مالَا أحسنُ لَفَنِيَ بَیتُ المالِ ولا یَفنیٰ مالا أحسنُ۔“
یعنی میں اجرت اسی کی لیتا ہوں جسے میں اچھی طرح جانتا اور بتاتا ہوں، اگر میں اُن چیزوں پر اجرت وتنخواہ لینے لگوں جن کا مجھے ٹھیک ٹھیک علم نہیں تو بیت المال کا سب خزانہ ختم ہو جائے گا اور میری وہ باتیں ختم نہ ہوں گی جنہیں میں اچھی طرح نہیں جانتا۔ خلیفہ کو آپ کا یہ جواب بہت پسند آیا اور انعام وخلعت سے نوازکر تنخواہ میں بھی اضافہ کردیا۔
{العلم والدین،ص:۲۴/۲۵}
علامہ امام ابو عمر یوسف بن عبد البر نابلسی نےاپنی کتاب ”جامع بیان العلم وفضلہ“ میں امام مالک کی سند سے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ عالم جب ”لاأدری“ کہنا بھول جاتا ہے تو ٹھوکریں کھانے لگتا ہے۔
حضرت عقبہ بن مسلم فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عبد اللہ بن عمر کی خدمت میں۳۴/ماہ رہا،میں نے دیکھا کہ اکثر مسائل میں ”لاأدری“فرمایا کرتے او ر میری طرف متوجہ ہوکر فرماتے: آپ کو معلوم ہے لوگ کیا چاہتے ہیں؟ پھر خود ہی فرماتے لوگ ہماری پیٹھ کو جہنم کے لیے پُل بنانا چاہتے ہیں۔
حضرت سفیان بن عُیینہ کہتے ہیں کہ ”أجسرُ الناسِ علی الفتیاأقلُّھم عِلماً۔“
جو فتویٰ دینے میں زیادہ جری ہوتا ہے وہ اُتنا ہی کم علم ہوتا ہے۔
عبد اللہ بن مسعود فرماتےہیں ”من أفتی الناسَ فی کل (ما یسئلونہ)فھو مَجنُونٌ۔“
جو لوگوں کو ہر معاملے میں فتویٰ دے دیتا ہے وہ دیوانہ ہے۔
سحنون بن سعید کہتے ہیں کہ جو فتویٰ دینے میں زیادہ جری ہوتا ہے وہ اُتنا ہی کم علم ہوتا ہے اور آدمی کے پاس کسی ایک باب کا علم ہوتا ہے تو گمان کرتا ہے کہ تمام حق اسی کے پاس ہے۔
فرماتے ہیں:
”أجرأُ الناسِ علی الفتیا أقلُّهم علماً، یکون عند الرجل الباب الواحد من العلم یظن أن الحق کلہ فیہ“
نیز فرماتے ہیں:
”إنی لَأحفظُ مسائل منھاما فیه ثمانیة أقوالٍ مِن ثمانیة أئمة من العلماء فکیف ینبغي أن أعجل بالجواب حتّیٰ أتخیّر، فلم ألام علیٰ حبسِ الجواب؟“
یعنی میں نے کچھ مسائل یاد کیے ہیں جن میں چند وہ مسائل ہیں جن میں آٹھ ائمۂ کرام کے آٹھ اقوال ہیں۔تو میرے لیے یہ مناسب نہیں کہ مختار قول کے امتیاز سے قبل ہی جواب میں عُجلت وجلدبازی سے کام لوں، تو پھر جواب کی تاخیر پر کیوں کر میری ملامت کی جاتی ہے۔
{جامع بیان العلم وفضلہ،ج،۱،باب تدافع الفتویٰ،وذم من سارع الیہا،ص:۱۱۲۴/۱۱۲۵،دار ابن الجوزیہ}
منقول ہے کہ ایک عالم سے ایک ایسی عورت کی بابت سوال کیا گیا جو پانچ ماہ کی حاملہ ہے اور نقاہت وکمزوری کے باعث ڈاکٹر اسقاطِ حمل کے بارے میں کہہ رہے ہیں کیا یہ جائز ہے؟تو انہوں نے جواب دیا”لا ادری“ مجھے اس مسئلہ کا جواب معلوم نہیں۔ سائل بڑا حیران ہوا کہ اتنے بڑے عالم اور فرما رہے ہیں کہ مجھے اس کا جواب معلوم نہیں۔ اگلےدن اس نے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ وہی سوال کیا عالم صاحب نے پھر وہی جواب دیا۔ تیسرے دن پھر دریافت کیا تو عالم صاحب نے وہی جواب دیا ۔ سائل سے رہا نہ گیا تو اس نے عالم صاحب سے پوچھا :آپ مجھے جواب کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ یا پھر واقعی آپ کو جواب معلوم نہیں؟
عالم صاحب نے فرمایا کہ مجھ میں بروز قیامت اس کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں ہے، اس لیے جواب نہیں دے رہا ہوں کہ اگر میں اسقاط حمل سے روک دوں اور کمزوری کی وجہ سےعورت مرگئی تو اس کا خون میری گردن پر ہے۔اور اگر اسقاط حمل کی اجازت دے دوں تو بچے کا خون میری گردن پر ہے۔ مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ساتھ اُن کے خون بھی اپنی گردن پر لادوں۔
یہ واقعہ اُن ائمہ،خطبا ، علما اورمفتیوں کے لیے درس عبرت ہے جو فتوے بازی میں جلد باز اور جری وبیباک ہیں ۔اور اپنی رائے کو {خواہ غلط ہو} دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے میں ساعی وکوشاں رہتے ہیں۔ اور اُن کی رائے نہ ماننے والوں کے لیے اگلا فتویٰ تیار رہتا ہے۔ اللھم احفظنا منہم۔

حافظ الحدیث عامر بن شرجیل یعنی امام شعبی متوفیٰ ۱۰۹ھ، سے ایک مرتبہ کسی نے ایک مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب میں” لا أدری“فرمایا۔ یعنی مجھے اس کا جواب معلوم نہیں ۔ تو سائل نے طیش میں آکر کہا کہ تُمہیں شرم نہیں آتی کہ فقیہِ عراق ہو کر کہتے ہو کہ میں نہیں جانتا۔“آپ نے نہایت متانت سے فرمایا کہ میں ایسی بات کہنے سے کیوں شرم کروں گا جس بات کے کہنے سے فرشتے بھی نہ شرمائے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں ؟ کہ جب اللہ تعالیٰ نےفرشتوں سے فرمایا کہ ” اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھٰؤلَاءِ۔“ یعنی تم سب ان چیزوں کے نام بتاؤ؟ تو فرشتوں نے بھی یہی کہا کہ” لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۔“یعنی ہم نہیں جانتے سوائے ان چیزوں کے جن کا علم تونے ہمیں دیا ہے۔سائل آپ کے جواب سے شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا۔

{المُسْتَطْرَفْ فی كلِّ فَنٍّ مُسْتَظْرَفْ، الباب الرابع}
حضرت عبد الرحمٰن بن علی یعنی علامہ ابن الجوزی بغدادی متوفیٰ ۵۹۷؁ھ نے اپنی کتا ب ” کتاب الأذکیاء“ میں امام شعبی کا ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ ایک دن ایک جوان نے آپ کے سامنے کچھ کلام کیا ۔آپ نے کہا ہم نے یہ نہیں سنا۔اس جوان نے کہا: کیا آپ نے تمام علم سن لیا ہے؟ امام شعبی نے فرمایا نہیں۔ اس نے کہا: کیا آپ نے آدھا علم سنا ہے؟ آپ نے کہا نہیں۔ جوان نے کہا :اِس کو اُس حصہ میں شمار کر لیجیے جو آپ نے اب تک نہیں سنا۔یہ سن کر امام شعبی لاجواب ہو گیے۔
{ لطائف علمیہ اردو ترجمہ کتاب الأذکیاء،دار الاشاعت،کراچی،۲۰۰۲؁ء،ص:۲۱۴}
آپ اندازہ لگائیے کہ امام شعبی جو نہایت ہی عظیم الشان تابعی محدث ہیں۔ ایک جوان آپ کو خاموش کر دیتا ہے ۔ آپ کی علمی جلالت اورعظمتِ شان کے لیے یہی کافی ووافی ہے کہ امام زہری ببانگ دہل فرمایا کرتے تھے کہ عالم حدیث کہلانے کے صرف چار ہی شخص ہیں۔سعید بن مسیب مدینہ منورہ میں۔ امام شعبی کوفہ میں۔ حسن بصری بصرہ میں۔ مکحول شام میں۔
( المستطرف فی کل فن مستظرف، الباب الرابع )
آپ اپنی عظمت شان اور عالمانہ وقارکے باوجود بہت متواضع اور منکسر المزاج تھے ۔ آپ مسائل کا جواب دینے میں بہت زیادہ محتاط تھے اور جس کا علم نہ ہوتا تو برجستہ ” لا أعلم، لاأدری“ جیسے کلمات ارشاد فرماکر اپنی لا علمی کا اظہار فرمادیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عُمر بن ابی زائدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام شعبی رضی اللہ عنہ سے زیادہ کسی شخص کو ، جب اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا ہو یہ جواب دیتے ہوئے نہیں دیکھا کہ ” مجھے اس کا علم نہیں ہے۔“
{ دارمی شریف،بتفصیل سابق، ص:۱۰۱}
اس سے ہمیں درس ملتا ہے کہ جس مسئلہ کا جواب معلوم نہ ہو بلا جھجھک اورکسی ملامت گر کی ملامت کا خوف کیے بغیر اس کے بارے میں یہ کہدیں کہ ”لا أدری،لا أعلم “ مجھے معلوم نہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص بغیر علم کے فتوی دیتا ہے اس پر زمین وآسمان کے تمام فرشتے لعنت کرتے ہیں۔
” مَنْ أَفْتَى بِغَيْرِ عِلْمٍ لَعَنَتْهُ مَلاَئِكَةُ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ۔“
{ابن عساکر،حرف المیم، ج،۳،ص:۱۵۸،حدیث نمبر: ۱۱۴۷۳، مکتبہ شاملہ}
ھیثم بن جمیل کا بیان ہے کہ میں امام مالک بن انس کی بارگاہ میں حاضر تھا۔لوگوں نے آپ سے اڑتالیس مسائل دریافت کیے تو آپ نے بتیس مسائل کے جواب میں یہی فرمایا کہ”لا أدری “یعنی میں نہیں جانتا۔
”قال الھیثم بن جمیل: شھدتُ مالك بن أنس، سُئل عن ثمان وأربعین مسألۃً، فقال فی انثنین وثلاثین منھا”لاأدری۔“
{ المستطرف فی کل فن مستظرف، الباب الرابع}
اورامام مالک بن انس سے 36/مسائل کے بارے میں ”لا أدری“ فرمانا منقول ومروی ہے۔ یعنی جب آپ سے کسی نے سوال کیا تو آپ نے 36/ مقامات پر ارشاد فرمایا مجھے اس کاجواب معلوم نہیں۔
سراج الامہ، کاشف الغمہ،امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے ”دہر“ کےبارے میں سوال کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا” لاأدری“ یعنی میں”دہر“ کے بارے میں نہیں جانتا۔
{مُنیر التوضیح،حاشیہ بر توضیح تلویح،ص:40، مجلس برکات}
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں: تم میں سے جس شخص کوجس چیز کا علم ہو اُسے اس کے مطابق بیان کرنا چاہیے اور جس چیز کا علم نہ ہو اس کے بارے میں بتا دینا چاہیے اور یہ کہنا چاہیے”اللہ أعلم “ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہےچونکہ جب کسی عالم سے کسی ایسی چیز کے بارے میں دریافت کیا جائے جس کا علم نہ ہو اور وہ یہ کہہ دے کہ”واللہ أعلمُ” یعنی اللہ تعالیٰ بہتر جانتاہے تو اللہ تعالی نے اپنے رسول سے یہ بات ارشاد فرمائی ہے۔
” قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِیْنَ۔“
{صٓ:۸۶}
”تم فرمادو میں اس بات پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگ رہا اور نہ ہی میں اپنی طرف سے بنا کر کوئی بات کرتا ہوں۔“
{سنن دارمی ،ص:۱۱۵}

عقل وقیاس سے جواب دینا ممنوع ہے!!!
شریعت طاہرہ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ جب تک مسئلہ کی تہہ اور اس کی جڑ تک رسائی نہ ہو اور اس کا یقینی علم واتقان نہ ہو محض تخمینہ،عقل وقیاس،اندازے اور اٹکل پچو سے جواب نہ دیا جائے اور اور بغیر علم کے فتوی یا جواب دینا ناجائزو گناہ ہے۔قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر عقل وقیاس سے جواب دینے کی ممانعت وارد ہے۔
جب رسول اللہﷺنے فرمایا تھا کہ بروز قیامت کافر کا کوئی مددگار نہیں ہوگا اور مؤمن کی مدد اللہ تعالیٰ، انبیائے کرام علیہم اورملائکہ کرام علیہم السلام فرمائیں گے تو نضر بن حارث نے کہا کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ تب یہ آیت مقدسہ نازل ہوئی۔
”قُلْ اِنْ اَدْرِیْۤ اَقَرِیْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ یَجْعَلُ لَهٗ رَبِّیْۤ اَمَدًا۔“
{الجن :۲۵}
تم فرماؤ میں نہیں جانتا آیا نزدیک ہے وہ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے یا میرا رب اسے کچھ وقفہ دے گا۔
”وَ اِنْ اَدْرِیْۤ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ۔“
”وَ اِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّهٗ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَ مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ۔“
{الأنبیاء:۱۰۹_ ۱۱۱}
میں کیا جانوں کہ پاس ہے یا دور ہے وہ جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔
اور میں کیا جانوں شاید وہ تمہاری جانچ ہو اور ایک وقت تک برتوانا۔
قرآن پاک سے ثابت ہوا کہ عقل وقیاس سے جواب دینا ممنوع ہے۔کیونکہ ان آیات میں عقل وقیاس اور بے تعلیمِ الٰہی جاننے کی نفی کی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہاں ”درایت“ کی نفی ہے اور ”درایت“ اندازے اورقیاس سے جاننے کو کہتے ہیں جیسا کہ ”مفرادت امام راغب“ اور ”رد المحتار“ میں ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ کے واسطے لفظ”درایت“ استعمال نہیں کیا جاتا۔والله اعلم بالصواب!
{خزائن العرفان،تحت آیت:”وَ اِنْ اَدْرِیْۤ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ“ ص:۶۱۷}

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ :

وإذا سُئِلتَ بِمَاجَھِلتَ فلا تَکُن

مُتَحَاذِقاً مُتَسَرِّعاً بِجَوَابِ

العِلمُ بَحرٌ لا نَفَادَ لِمَائِهِ

کَم قَالَ ”لَا أدرِي“ أولُو ا الألبَابِ

لَا عِلمَ عِندِي لَیسَ عَیباً قَولُھَا

العَیبُ أن یُفتیٰ بِغَیرِ صَوَابِ.

یعنی جب تم سے کوئی چیز پوچھی جائے اورتمہیں علم نہ ہو تو ماہر بننے اورجواب میں جلدبازی کرنے والے نہ ہوجاؤ۔
علم ایک دریائے ناپیدا کنار ہے۔ کتنے ہی ارباب عقل ودانش نے ”لا أدری“ کہا،یعنی میں نہیں جانتا۔
”اس مسئلہ کامیرے پاس علم نہیں“ یہ کہنے میں کوئی نقص وعیب نہیں۔ہاں نقص وعیب اور برائی تو تب ہے جب غلط مسئلہ بتا دیا جائے۔
خاتم المحققین، فقیہ، مفتی، علامہ محمد امین یعنی علامہ ابن عابدین شامی رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب مستطاب "شرح عقود رسم المفتی” میں ایک مفتی کے لیے "لاأدری، کہنا کب ضروری اور قدر اہم ہے” پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
"إذا لم يجدْ تلك الحادثة في كتاب _ ليس له أن يُفتيَ فيها برأيه_ بل عليه أن يقولَ : "لَا أدري”، كما قال مَن هو أجَلُّ منه قدْراً مِن مجتہدي الصحابة ومن بعدهم، بل هو مَن أُيِّدَ بالوحي،ﷺ•
{شرح عقود رسم المفتی، لا بد للعالم من "لَا أدري” ص:53، مکتبۂ بشری، کراچی، پاکستان }
مفتی جب مسئلہ کسی کتاب میں نہ پائے تو مفتی کے لیے روا نہیں ہے کہ اپنی رائے سے فتویٰ دے، بلکہ اس پر لازم و واجب ہے کہ "لاأدری” کہے یعنی مجھے اس مسئلے کا جواب معلوم نہیں، جس طرح مجتہدین صحابہ کرام نے "لاأدری” فرمایا ہے حالانکہ وہ اِس سے بلند و بالا رتبے والے تھے، اسی طرح بعد کے علما نے بھی کیا ہے، بلکہ "لاأدری” اس ذات گرامی باوقار ﷺ نے بھی کہا ہے جس ذات کو وحی الہی کی تائید حاصل تھی۔
جب ایک معتبر و مستند مفتی کے لیے بغیر علم کے جواب دینا ناجائز و گناہ ہے تو علم سے کورے، جاہل، ان پڑھ ،گنوار عام انسان کے لیے بدرجہا ناجائز و گناہ ہے ۔ غلط مسائل بتانے کی جرأت و جسارت بد بخت، خائب و خاسر، نامراد و ناکام یا پھر گاؤں کے چودھری، پانچ دس کتابیں پڑھنے والا گھمنڈی متکبر مولوی، دور حاضر کے خطبا،ائمہ، جعلی درویش،ڈھونگی بابا اور بے شرع پیر، فقیر ہی کر سکتے ہیں کوئی خدا ترس، معتبر و مستند عالم و فاضل ایسا کر ہی نہیں سکتا ۔
فليس يجسُرُ على الأحكام
سوٰى شَقِيٍّ خاسرِ المرام•

شرعی احکام کو بیان کرنے پر دلیری و بیباکی بد بخت، خائب و خاسر آدمی کے سوا کوئی نہیں کر سکتا•
حاصل یہ کہ جس چیز کا علم وادراک نہ ہو اس کے بارے میں”واللہ أعلم ، لا أعلم ،لا أدري، لا علم لنا “اور ان جیسے کلمات کے ذریعہ اپنی “لا علمی کا اظہار“ کردینا ملائکہ، علما،فقہا، ائمہ کرام کی اور اسلامی بولی بولنا ہے۔ علم ایک بحر ناپیداکنار ہے جس کے مسائل واحکام بے شمار ہیں اور اُن کے شمار واحاطہ کا کوئی ضابطہ بھی نہیں ہے جس کے ذریعہ ان کو حفظ و یاد کر لیا جائے۔ إن الحَوَادِثَ لَا تَکَادُ تَتَنَاهي ولَا ضَابِطَ یَجمَعُ أحکَامَھَا۔
لہٰذا جس کا علم نہ ہو اس کے بارے میں کسی مستند و معتبر سنی عالم ومفتی کی طرف رہنمائی کردینی چاہیے۔
اللہ تعالی کا ارشادہے : وَفَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ۔“
یعنی ہر علم والے سے بڑھ کر علم والا ہے۔
” فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔“
ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی۔
اس کی روشنی میں یہ یاد رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کہیں زیادہ ارباب حل وعقد اور یارانِ نکتہ داں کو پیدا فرمایا ہے۔ جب انہوں نے خود ”لا أدری “وغیرہ کہہ کر اپنی ”لاعلمی کا اظہار“ فرما دیا تو میرے لیے کوئی ندامت وشرمندگی کی بات نہیں ہے۔
غلط فتوی یا جواب دینے سے بہتر سکوت وخاموشی ہے۔ معذرت طلب کرنا کوئی نقص وعیب یا برائی کی بات نہیں ہے۔نقص و عیب تو تب ہے جب مسئلہ غلط بتا کراس کا وبال اپنے اوپر لے لیا جائے۔

مسئلۂ لا أدری: ایک تحقیق” پر 0 تبصرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے