تحریر: مشتاق نوری
یہ کتنا عبرت ناک ہے اور افسوس ناک بھی کہ کنہیا اور عمر خالد ایک ہی یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم رہے۔دونوں میں سیاست اور روایت سے بغاوت کرنے کا حوصلہ بہت تھا۔دونوں نے ساتھ ساتھ ملک کے سرد و گرم کا تجربہ کیا۔بگڑتے سنورتے حالات سے بہت کچھ سیکھا بھی۔ان کے انقلابی سلوگن کے سبب سیاست کا پارا چڑھتا اترتا بھی رہا۔حکومت کی ناراضیاں بھی جھیلیں۔جب جے این یو میں گودی میڈیا کے پروپگنڈے کے سبب کنہیا مجرم بنایا گیا تو عمر بھی لپیٹے میں آیا۔اس نے قدم قدم پر کنہیا کا ساتھ دیا۔کہنیا کے بڑھتے قدم میں عمر کی پری پلاننگ کام کرتی رہی۔بطور ڈائریکٹر عمر نے کنہیا کو سپورٹ کیا۔
معتبر ذرائع کی مانیں تو عمر خالد کی صلاحیتیں کنہیا سے ورا ہیں۔عمر ہر لحاظ سے کنہیا سے بیس ہی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ عمر ایک مسلم نام والا ہے اور کنہیا ہندو نام والا۔آج اسی نام کے فرق نے دونوں کو کیا دن دکھاۓ ہیں۔کنہیا اسی باغیانہ تیور کے سہارے کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر بیگوسراے سے لوک سبھا الیکشن لڑا اور ہارا بھی۔مودی کے اچھے دنوں کی کھلی اڑاتے اڑاتے خود اس کے اچھے دن آگئے ۔آج کانگریس کی گود میں جا بیٹھا۔چناو ہارنے کے بعد جیسے دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہو۔ایسا لگتا ہے کانگریس پہلے سے بانہیں پھیلاۓ کنہیا کا منتظر تھی۔اپنی ڈوبتی نیا کو پار لگانے کے لیے جیسے راہ تک رہی تھی۔جی ہاں! راہل کی ناکامیوں نے تو کانگریس کی قبر ہی کھود دی تھی۔اب وہ بھی کیا کرتی، کوئی تو چاہیے تھا جو اس کی سونی اجڑی مانگ میں پھر سے چٹکی بھر خوں رنگی سندور سجا دے۔سو مل گیا۔
ادھر بے چارا عمر خالد صرف نام کی وجہ سے جیل میں سڑایا جارہا ہے۔وہ بھی ناکردہ گناہوں کی سزا۔صاحبو! گناہ بے گناہی کی سزا کافی اذیت ناک ہوتی ہے۔وہ ایسے جرم کی سزا بھگت رہا ہے جو طے ہی نہیں ہے جو اس نے کیا ہی نہیں۔جسے آج کنہیا کے لیبل کا لیڈر ہونا چاہیے وہ محض اس لیے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا ہے کہ اس کا تعلق اسلام دھرم سے ہے۔آج کنہیا اونچائیاں چھوتا جارہا ہے اور عمر کو ٹھکانے لگانے کا سارا بندوبست کر دیا گیا ہے۔یہ سیاست بڑی حرام زادی مکار ہوتی ہے اپنے راہ کے روڑے کو کنارے لگانے سے دریغ نہیں کرتی۔وہ روڑا اگر مسلم نام والا ہے تو پہلی فرصت میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔یہ کتنا بھیانک ہے کہ آج کانگریس جوائن کرتے ہوئے کنہیا اپنے مستقبل کے سہانے خواب سنجونے لگا ہے۔اور عمر کو اپنی قسمت پر اپنے قوم کی بے حسی پر رونا پڑ رہا ہے۔
ان دونوں کا ایک اور باشعور با غیرت دوست، نام تھا نجیب۔
انقلابی جدوجہد کا مالک اور اقبال کا تراشا گیا شاہین تھا۔مگر کیا ہوا۔اسے یونیورسٹی کیمپس سے غائب کر دیا گیا۔نجیب کی ماں ہاتھ میں کلیجہ رکھے در بدر انصاف کو بھٹکتی رہیں۔چیخنے والی ماں تھک ہار کر بیٹھ گئیں،پکارتے پکارتے ان کی اواز ہی گلے میں روندھ گئی۔نجیب اب تو شاید نہیں آ سکتا۔مگر کیا عمر جیسوں کو بھی جانے دیا جاۓ؟آج کوئی ایسا نہیں جو عمر کی خبر گیری کرے۔جیسے سب نے اس سے پلہ جھاڑ لیا ہو۔جیسے سب دامن بچا رہے ہوں۔یہاں تک کہ جگری دوست کنہیا بھی نام لینے سے کتراتا ہے کہ کہیں ہندو سماج کے ٹھیکیدار ناراض نہ ہو جائیں۔کیا یہ سچ نہیں کہ آج ہر میڈیا چینل کنہیا کو کوریج دے رہا ہے۔اس کے اسٹیٹ منٹ کو من و عن نشر کر رہا ہے۔مگر کیا کسی نے بھی عمر جیسے لوگوں کے خلاف ہو رہی زیادتی پر سوال اٹھایا؟ کبھی میڈیا نے مسلم نام والے لوگوں کی بے گناہی پر بات کی؟
کنہیا تو ترقی کی سیڑھی چڑھتا جاۓ گا کیوںکہ اس کا سماج اس کے ساتھ ہے۔اب تو کانگریس بھی اس کی مائی باپ بن گئی۔کسے خبر کل کو بھاجپا بھی پناہ گاہ بن جاۓ۔یہ سیاست ہے کچھ بھی امکان سے باہر نہیں۔اور سیاست کو ایسوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔پھر کیا غم؟
دہشت گردی کے الزام میں ہزاروں پڑھے لکھے مسلم نوجوان جیلوں میں سڑاۓ گئے۔جیلوں میں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا۔انہیں ایسے گناہوں کا عتاب جھیلنا پڑا جو ان کے وہم گمان میں بھی نہیں رہا۔لمبے عرصے تک انصاف کے نام پر وکیلوں کی جرح فورمیلٹی کا ڈرامہ ہوتا رہا۔تاریخ پر تاریخ آتی رہی۔ان کے رشتے دار، بچے ،والدین منتظر رہے کہ اب انصاف ملے گا تب انصاف ملے گا مگر ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا۔اسی بے رحم آپا دھاپی میں کسی کے سترہ سال نکل گئے۔کسی کے پچیس سال تو کسی کے بائیس سال۔کسی نے جیل میں ہی دم توڑ دیا۔اخیر میں کورٹ نے یہ کہ کر احسان کیا کہ اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کے سبب عدالت باعزت بری کرتی ہے۔
کیا باعزت بری کرنا؟بھاڑ میں جاۓ کورٹ کا ایسا فرمان جس کے آنے میں ملزم کو اپنی زندگی کے قیمتی بیس پچیس سال جیل میں گزارنے پڑے۔جب جیل گئے تھے تن و مند جوان تھے۔جب جیل کی چہار دیواری سے باہر آۓ تو جوانی کی بہاریں ہوا ہوچکی تھیں۔بڑھاپے نے پیر پسار لیے تھے۔شاید آپ کو یاد ہوگا یوپی کا ایک نوجوان اسی دہشت گردی کیس میں جیل گیا تھا، اس کی شادی کے زیادہ دن بھی نہیں ہوۓ تھے۔بیوی حاملہ ہوگئی اور وہ جیل چلا گیا۔پچیس سال بعد جب باعزت بری کا آرڈر آیا تو اس کے بیٹے کو ایک بیٹا ہوچکا تھا۔سوچیے یہ کتنے درد انگیز لمحے ہوں گے۔
مگر ہماری قوم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان جیسے بے گناہ لوگوں کے قیمتی ماہ و سال کا ہرجانہ مانگ لیں۔یہاں ہر کسی کو اپنی پڑی ہے کسی کو کسی کے بننے بگڑنے سے کوئی سروکار نہیں۔عمر و شرجیل جیسے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔آپ کے ساتھ بھی اور میرے ساتھ بھی۔کیوں کہ ہم با غیرت و باہمت نوجوانوں کے لیے لڑنے والا کوئی نہیں ہے۔سماج میں تماش بین تو بہت ہیں۔یہ بے حس بے شعور قوم کی علامت ہے۔بے حس قوم اپنے جاں بازوں، دلیروں کو بے سہارا چھوڑ کر خود کو غیروں کے رحم و کرم پر ڈال لیتی ہے۔کیفی اعظمی نے کہا تھا کہ
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے