ازقلم: محمد ہاشم اعظمی مصباحی، نوادہ مبارکپور اعظم گڑھ یوپی
مکرمی : آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ چند صدیوں سے دنیائے انسانیت سائنس اور ٹکنالوجی کے بے پناہ ثمرات سے خوب استفادہ کررہی ہے۔آج سائنس و ٹیکنالوجی کا دار دور ہے لوگ کہتے ہیں دنیا نے بے پناہ ترقی کرلیا ہے لیکن انہیں ترقیوں کے درمیان دنیا نے یہ منظر بھی دیکھ رہی ہے کہ جن قوموں کا ماضی میں کوئی وجود نہ تھا وہ قومیں اپنی مادی طاقت وقوت کی بنیاد پر اُبھررہی ہیں دنیا کے بازاروں میں ان کی عظمت کا سکہ رائج الوقت بنا ہوا ہے اور بعض ترقی یافتہ دوسری قوموں کی سیادت و قیادت اور عظمت و رفعت کا سورج غروب رہا ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا ہے کہ دنیا کے اسٹیج پر کچھ تہذیبیں ابھریں اور کچھ زوال پذیر ہوگئیں ۔
میرے بھائیو! یہ ایک نئی دنیا ہے جسے کچھ لوگ ظلم و زیادتی کا جہان بھی کہتے ہیں. جہاں پر ہر مجبوری ایک کاروبار ہے اور ہر کمزوری و لاچاری کی قیمت وصول کی جاتی ہے. آج کی دنیا نے لاکھ ترقی کرلیا ہو لیکن یہ زمینی سچائی ہے کہ آج کی دنیا بھوک ، قرض اور علاج جیسے عالمی دھندوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے. پرانے دور میں یہ تینوں چیزیں انسان کی بنیادی ضروریات میں سے تھیں مگر نئی دنیا میں ان کو بہترین سامان تجارت کے درجے میں اتار لیا گیا ہے. یہ کاروبار بہت وسیع پیمانے پر اور انتہائی منظم طریقے سے چلایا جارہا ہے . ایک طرف غریبوں سے کوڑی کے مول مزدوری کروا کر خوب نفع کمایا جاتا ہے جب کہ دوسری طرف متوسط طبقے کو محدود تنخواہ کے ساتھ زندگی بھر نوکری کا پابند رکھا جاتا ہے. پھر ان ہی مفلسوں کو امیری کے خواب دکھا کر سودی قرضے تھما دیا جاتا ہے . پھر مزدوری اور نوکری کی مشقت میں پِس کر قرض کا بوجھ لیے پھرنے والا کوئی غریب یا متوسط درجے کا انسان جب اپنی صحت گنوا بیٹھتا ہے تو اسے علاج کی معاشی قتل گاہ میں پہونچادیاجاتا ہے.اس کے بعد شروع ہوتا ہے رفاہ عامہ اور انسانی حقوق کے بینر تلے کالےدھندے ایک طرف بھوکوں کی مدد کے نام پر ان ہی غریبوں کے ہاتھوں سے تیار کردہ لاکھوں ٹن اناج سے چند دانے ان کے سامنے پھینک دیے جاتے ہیں اور اسی نوکری پیشہ طبقے کو اسی کی محنت سے جمع کیے گئے مختلف فنڈ بھیک کی شکل میں دے دیے جاتے ہیں. جب کہ دوسری طرف غریب مریضوں کے علاج کے پردے میں اپنی دوائیوں کی تجربہ گاہ تعمیر کی جاتی ہے اور متوسط طبقے کا مریض انشورنس کے نام پر علاج کے ایک اور دلدل میں پھنس جاتا ہے. اس طرح امیروں کا اپنا ہی برپا کیا ہوا غریب کش نظام ان کی اپنی ہی شہرت کا ذریعہ بن جاتا ہے. پھر باری آتی ہے میڈیا کی سرمایہ داروں کا زرخرید غلام میڈیا خیرات کے چند سکے لے کر ان سفید پوش بھیڑیوں کو غریب پرور، عالمی برادری کا ہمدرد اور رفاہ عامہ کا تاجدار بنا کر پیش کر دیتا ہے اور چپکے سے غریبوں کے استحصال کے کاروبار میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے نفع خوری کی عالمی منڈی میں شامل ہو جاتا ہے.