سیاست و حالات حاضرہ

رقیہ بانو سے مسکان آریہ بنی: نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

ایڈیٹر کے قلم سے

اترپردیش کی بی۔جے۔پی۔ حکومت نے غیرقانونی مذہبی تبادلوں کا قانون نافذ کیا ہے۔ اس قانون کے مطابق محبت کرنے والے جوڑے کو شادی سے قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے اجازت لینا ضروری ہے۔ ہندوؤں کی تنظیموں کے ذریعہ اکثر مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے پر شور وغوغہ کیا جاتا رہا ؛ہے ہندو تنظیموں کی طرف سے ہمیشہ الزام عائد کیا جاتا رہاہے کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا لیتے ہیں اور پھر ان کا مذہب تبدیل کروا کر شادی کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میںلوجہاد کا معاملہ میڈیا میں بار بار بحث کا موضوع بنتا رہا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ بی۔جے۔پی۔ کی اتحادی تنظیموں کے ساتھ ساتھ بی جے پی قائدین نے بھی اس مسئلہ کو کافی طول دیا ہوا ہے۔
جسے لے کر اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے نومبر میں ایک جلسہ عام میں لوجہاد کرنے والوں کی جنازہ نکالنے کی کھلے عام تنبیہ کی تھی اور پھر کچھ دن بعد یوپی حکومت نے غیرقانونی مذہب تبدیلی کا قانون نافذ کیا تھا۔ جس کے بعد قانون ماہرین نے اس قانون کی مخالفت بھی کی ، لیکن بھاری اکثریت والی بی۔جے۔پی۔ حکومت نے اسے حتمی شکل دے دی۔ لہذا مذہبی تبدیل کر اس طرح شادی کرنا جرم قرار پائی۔ اس قانون کا حوالہ دیتے ہوئے پہلا مقدمہ بریلی میں درج کیا گیا اور اس کے بعد دوسرا مقدمہ مراد آباد کے کانٹھ میں ہوا۔ دونوں نوجوان جن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے وہ مسلم برادری سے ہیں اور ایک ہندو عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکی کے لواحقین نے ان کے خلاف شکایت درج کروائی ، جس پر پولیس نے گرفتار کیا اور دونوں نوجوانوں کو مراد آباد اور بریلی کے جیل بھیج دیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ان دونوں معاملوں میں شکایت لڑکی کے گھروالوں نے درج کرائی تھی نہ کہ لڑکی نے اس کے باوجود غیرقانونی مذہب تبدیلی قانون کے پیش نظر پولیس نے دونوں نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔

رقیہ سے مسکان بنی مسلم لڑکی کی زندگی ہوئی اجیرن
جہاں پورے صوبہ میں اس قانون کو لےکر گرما گرم بحث چھڑی ہوئی ہے اور پولیس یک طرفہ کارروائی کرنے میں مصروف عمل دکھ رہی ہے وہیں اب نیا معمالہ صوبہ کی دارالحکومت لکھنؤ سے سامنے آیا ہے جہاں رقیہ نامی ایک مسلم لڑکی کو یشوردھن نامی ہندو لڑکے نے محبت کی جال میں پھنسا کر اس کا مذہب غیر قانونی طور سے تبدیل کراکے شادی کرلی تھی لیکن اب اس لڑکی کی زندگی اجیرن بنتی نظر آرہی ہے۔
دراصل لکھنؤ کے امین آباد کے رہائشی عبد المغنی کی بیٹی رُقیہ بانو نے اپنے محبوب یشوردھن سریواستو سے شادی کرلی۔ یشوردھن سریواستو لکھنؤ کے علاقے راجاجی پورم میں رہتا ہے۔ روقیہ نے اپنا مذہب ترک کر کے ہندو مذہب اختیار کرلیا ، اور اپنا نام بدل کر مسکان آریہ رکھ دیا۔ یہ شادی 3 ستمبر 2017 کو لکھنؤ کے علی گنج کے آریہ سماج مندر میں ہوئی تھی۔ مسکان کا کہنا ہے کہ ان کی شادی کے کچھ دن بعد ہی ان کے رشتے میں پھوٹ پڑ گئی ، ان کے بقول اس پھوٹ کی وجہ ان کے سسرال والوں کا غیرمناسب رویہ ہے۔ مسکان کے مطابق اس کے سسرال والے اس کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ کسی بھی طور پہ انسانیت نہیں ہے، اس کی ساس اسے باورچی خانے کے برتنوں ، گھریلو سامانوں کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ تو مسلمان ہے اور تمہاترے چھونے سے ہمارے گھریلو چیزیں ناپاک ہوجائیں گی۔ اس کے ہندو ہونے پر سسرال والے یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان ہے وہ کبھی بھی اپنے مذہب کو ترک نہیں کرسکتی ، ہم سریواستو ہیں اور ہمیں سریواستو خاندان میں اپنے بیٹے کی شادی کرنی ہوگی۔ مسکان کا کہنا ہے کہ اس کی ساس نے اسے کئی بار بتایا کہ میرے بیٹے کا تم سے جی بھر گیا ہے اب تم یہاں سے چلی جاؤ۔

کس طرح محبت کے جال میں پھنسی تھی رقیہ
روقیہ بانو نے ایل۔ایل۔ایم۔ کیا ہوا ہے۔ مسکان آریہ بننے سے پہلے وہ لکھنؤ کی پریپیئرآئی۔اے۔ ایس۔ کوچنگ میں پڑھاتی تھیں ، وہ وہاں پی۔سی۔ایس۔جے۔ کی کوچنگ کراتی تھیں۔ جبکہ یشوردھن سریواستو کوچنگ سینٹر کے مالک کے توسط سے وہاں داخلہ لینے آیا تھا، جہاں دونوں کی ملاقات ہوئی اور پھر بات مذہب تبادلہ کے بعد شادی تک پہنچی۔ روقیہ کہتی ہے کہ یشوردھن نے شادی کرنے کے لیے اس پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا ، ایک دن نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یشوردھن نے اپنے ہاتھ کی رگیں کاٹ لیں ، جس کی تصویر مجھے وہاٹس ایپ پر میسج کیا تھا۔ روقیہ کے مطابق یشوردھن نے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے اس سے شادی نہیں کی تو وہ خودکشی کرلے گا۔ اس کے بعد میں نے اس سے شادی کرلی۔ روقیہ کے مطابق میں نے یشوردھن کے مشورے پر مذہب تبدیل کیا تھا ، یشوردھن نے کہا کہ اگر آپ مذہب تبدیل کر لیتی ہیں تو خاندان میں گھل مل جانا آسان ہوگا۔ روقیہ کے بقول: میں نے یہ بھی سوچا تھا کہ ویسے بھی میری ساری زندگی سسرال میں ہی گزارنی ہے پھر کیوں نہیں وہی مذہب اپنائیں جو میرے سسرال والوں میں ہے۔ اگرچہ میرا کنبہ اس فیصلے سے خوش نہیں تھا ۔ اس کے بعد میرے والد ، بھائیوں اور بہنوں نے مذہب تبدیل کرنے اور شادی کرنے کی وجہ سے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دی۔ پھر بھی میں اپنی والدہ سے مسلسل بات کرتی رہی ، شادی کے تقریباً چھ ماہ بعد میرے والد کو بھی میرا فیصلہ قبول کرنا پڑا اور انہوں نے یشوردھن کا استقبال بھی کیا۔ یشوردھن سریواستو کو میرے گھر والوں میں وہی حیثیت ملی ہے جو ایک داماد کو ملتی ہے۔

تو کیا میں صرف استعمال کے لیے ہوں؟
رقیہ سے مسکان بننے والی لڑکی کو سسرال میں ساس کی طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اور سابق مذہب پر تبصرے بھی۔ مسکان کے مطابق "میری ساس کا کہنا ہے کہ میں کسی ایس۔سی۔ لڑکی کو اپنے گھر کی بہو بناسکتی ہوں مگر تجھ(مسلم) کو نہیں”مجھے گھر میں کسی چیز کو چھونے کی اجازت نہیں ہے ، ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے پر یا کچن کے برتنوں کو چھونے پر گالیاں سننے کو ملتی ہیںاور طنزسننے پڑتے ہیں ۔ میرا شوہر صرف میرے ساتھ سو سکتا ہے۔ کیا میں لطف اندوز کرنے کے لیے ہوں؟ کیا میں صرف استعمال کرنے کے لیے ہوں؟

مسکان کا کہنا ہے کہ میں رقیہ نہیں ہوں لیکن اس کے باوجود مجھے گھر کی پوجا پاٹھ میں شامل نہیں کیا جاتا ہے، اگر میں گھر میں بنے ہوئے مندر کے قریب بیٹھتی ہوں تو میری ساس مجھے یہ کہتے ہوئے اٹھاتی ہے کہ تیرے یہاں بیٹھنے سے مندر کی بے حرمتی ہوگی۔ مسکان بتاتی ہے کہ میرے سسرال میں کراوچوت نہیں منائی جاتی ، چھٹ پوجا کی جاتی لیکن اس میں بھی مجھے شامل نہیںکیا گیا تھا۔

پہلے اسقاط حمل کرایا پھر گھر سے نکالا
مسکان کا کہنا ہے کہ سسرال والوں نے میرا اسقاط حمل کرایا۔ پھر اگست 2018 میں میں اپنے شوہر کے ساتھ رائے پور گئی ، جہاں ہم کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ 25 اگست 2018 کو میرے شوہر نے مجھے گھر میں بند کردیا اور لکھنؤ واپس آگیا ،جس کے بعد پڑوسیوں کی مدد سے کسی طرح اس گھر سے باہر نکلی۔ تب میں نے رائے پور پولیس میں شکایت درج کروائی ، لیکن اسی وقت مجھے معلوم ہوا کہ میرے سسرال والوں نے مجھ پر میرے بیٹے کو مارنے کا الزام لگایا ہے،میں نے یوپی پولیس کو بتایا کہ میں اپنے شوہر یشوردھن سریواستو کے ساتھ رائے پور آئی ہوں۔ تب رائے پور پولیس نے مجھے لکھنؤ جانے اور اپنے سسرال والوںکے خلاف شکایت درج کرنے کا مشورہ دیا۔ میں کسی طرح لکھنؤ پہنچی۔ میں سیدھا اپنے سسرال گئی تو ان لوگوں نے مجھ سے مارپیٹ کی۔ اور پھر 2 ستمبر 2018 کی رات یشوردھن سریواستو نے مجھے عیش باغ پل پر چھوڑ دیا ، اور میں وہاں سے کسی طرح اپنےمائیکےپہنچی۔ اس کے بعد الٹا میرے شوہر نے میرے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا۔ اور وہاٹس ایپ پر مجھ سے گالی گلوج کی ، میں نے شکایت درج کرنے کی کوشش کی لیکن یہ شکایت درج نہیں کی جاسکی۔
مسکان نے بتایا کہ میرے سسرال والے واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم آر۔ایس۔ایس۔ اور بی۔جے۔پی۔ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ، تم چاہے جتنا پولیس کے چکر کاٹ لو ہم تمہاری شکایت درج نہیں ہونے دیں گے۔ مسکان کا کہنا ہے کہ قریب ایک سال بعد ، 29 جون 2019 کو ، میری طرف سے پہلی شکایت درج کروائی گئی۔ یہ شکایات آئی۔ٹی۔ ایکٹ کے تحت دائر کی گئی کیوں کہ مجھ سے وہاٹس ایپ پر غیر مہذبانہ گفتگو کی گئی تھی۔ اس کے بعد جولائی 2019 میں میری طرف سے جہیز کا مقدمہ درج کیا گیا۔

یہ ہماری مہم کا حصہ ہے
مسکان نے اپنی ساس پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ میری ساس نے مجھ سے کئی بار کہا ہے کہ میں آر۔ایس۔ایس۔ سے وابستہ ہوں اور مسلم لڑکیوں کو پھنسانا ہماری مہم کا ایک حصہ ہے۔ صرف یہی نہیں ، مسکان نے مزید کہا گیا ہے کہ میری ساس نے بھی مجھے کئی بار بتایا ہے کہ میرے بیٹے کے سینکڑوں جوان خواتین سے تعلقات ہیں ، کیا ہم ان سب کو بہو بنائیں۔ جب مسکان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ شادی سے پہلے وہ لوگ آپ کے بارے میں نہیں جانتے تھے؟ تومسکان نے بتایا کہ شادی سے پہلے (شوہر کا)سارا کنبہ میری تعریف کرتا تھا ، اور مجھ پر دباؤ ڈالتا تھا کہ میں یشوردھن سے شادی کرلوں۔ تو میری زندگی خوبصورت ہوگی ، لیکن میری شادی کے صرف 25 دن بعد ہی ، مجھے اپنے سابقہ مذہب کی وجہ سے ستایا جانے لگا اور آج میں اس مقام پر آگئی ہوں کہ میں خود سے پوچھتی ہوں "میں کون ہوں اور میں کیوں ہوں؟”

پولیس نے سنجیدگی سے نہیں لیا میرے کیس کو
مسکان نے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ آئی۔پی۔سی۔ 376 کے چوتھے حصے کے مطابق جرم ہے۔ مسکان کا کہنا ہے کہ "میرے والدین کہتے ہیں کہ میں ہندو ہوں ، جبکہ میرے سسرال والے کہتے ہیں کہ میں ایک مسلمان ہوں۔ اور میں یہ ثابت کرنے کے لیے لڑ رہی ہوں کہ میں کون ہوں۔ مسکان نے کہا کہ کیا انصاف مذہب دیکھ کر کیا جاتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ میرے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟ مسکان کے مطابق "مجھے کسی مذہب سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی ہندو کا معاملہ بھی اسی طرح ہوتا ، تو کیا اس کے ساتھ بھی وہی ہوتا؟ میرے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک صرف اور صرف (ماضی میں)میرے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ پولیس نے میری شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

ازقلم: محمد شعیب رضا نظامی فیضی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے