تحریر: حافظ محمد ہا شم قادری مصباحی، جمشید پور
موبائل:9386379632
رب تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا فرمایا اور سبھی مخلوق کا جوڑا بھی بنایا۔ نسل اِ نسانی میں رشتہ اِزدواج کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواسلام اللہ علیہا کے ملاپ سے شروع ہوااور ہر زمانے میں مختلف طریقوں سے رائج رہا۔ یہاں تک کہ جنگلوں میں بسنے والے جنگلی اِنسانوں میں شادی بیاہ کا طریقہ رائج تھا۔ نکاح انسانی تہذیب و تمدن میں سب سے مقدم اور اہم طریقہ ہے جو رائج ہے۔
زمانہ قدیم میں شادی بیاہ کا تصور:
زمانہ قدیم میں جس قوم کی تہذیب سب سے نمایاں نظر آتی ہے، وہ یونان کی تہذیب ہے۔ یونانیوں میں شادی کا ایک نظام رائج تھا،لیکن اس قوم کے ابتدائی دور میں اخلاقی،قانونی اور معاشرتی لحاظ سے عورت کی حیثیت بہت گری ہوئی تھی۔اخلاقی بنیادوں پر عورت کی حیثیت بے بس غلام کی سی تھی اور مرد کو اس معاشرے میں ہر اعتبار سے فوقیت حاصل تھی،بلکہ بد اخلاقی کی اس فضامیں عورت صرف مردوں کی ہوس کا نشانہ تھی۔عورت کو تمام مصائب( تکالیف،مصیبتیں،رنج وغم ،سختیاں) کا سبب قرار دیا جاتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ رب تعالیٰ نے ہر جوڑے میں کشش(کھینچائو،لگائو،دل کشی، رغبت) چاہت پیدا فر مائی ہے،اسی وجہ کر تمام مخلوق کا جوڑا،couple,( میاں بیوی، نرو مادہ یا ان میں سے کوئی ایک زوج) بھی بنایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالسَّمَاء بَنَیْْنَاہَا بِأَیْْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (47) وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاہَا فَنِعْمَ الْمَاہِدُونَ (48) وَمِنْ کُلِّ شَیْْء ٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (49) ترجمہ:اور آسمان کو ہم نے ہاتھوں سے بنایا اور بیشک ہم وسعت دینے والے ہیں ۔اور زمین کو ہم نے فرش کیا تو ہم کیا ہی اچھے بچھالے والے اور ہم نے ہر چیز کے دو جوڑ بنائے کہ تم دھیان کرو ۔(القر آن، سورہ،الذّٰریات:51آیت47سے49)(کنز الایمان) رب تعالیٰ کا ارشاد ہے ہم نے ہر چیز کی دو قسمیں بنائیں جیسے آسمان اور زمین سورج اور چاند، نرو مادہ وغیرہ تاکہ تم غور کرو۔ فی زمانہ سائنس کی تحقیق سے یہ پتہ لگ چکا ہے کہ درخت اور پتھروں میں بھی نرومادہ ہیں۔ دوسری جگہ یوں ذکر فر مایا:
سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِہِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُونَ ۔
تر جمہ:پاکی ہے اسے جس نے سب جوڑے بنائے ان چیزوں سے جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود ان سے اور ان چیزوں سے جن کی انہیں خبر نہیں ۔( القر آن،سورہ یٰسین:36 آیت36 -کنزالایمان)
شادی شدہ زندگی گزار نے کے لیے سماجی اور قانونی جوڑے کا ہونا ضروری ہے۔ زمانہ قدیم کی تہذیبوں میں باقاعدہ کوئی طریقہ یا قانون موجود نہیں تھا،یونانی تہذیب میں شادی کا جو طریقہ رائج تھا وہ بہت دقیا نوسی( پرانے زمانے کا، قدیم رسموں اور روایتوں کا پابند،رجعت پسند) تھا۔ یونانیوں میں نکاح پر کوئی قد غن،روک ٹوک،پابندی مما نعت،بندش، نہیں تھی جو شخص جس سے چاہتا نکاح کر لیتا،حتیٰ کہ دُختر اور ہمشیرہ سے بھی شادی کر لیتا۔( اِنسائیکلو پیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس ،کے مقالہ نگار نے یونانی،رومی تہذیبوں کا ذکر بڑی صراحت سے کیا ہے) الحمد للہ! مذہب اسلام نے نکاح کے بہت واضح طریقے بتائے اور زمانہ قدیم میں رائج برائیوں کے خاتمے کا طریقہ بتایا نکاح کے بارے میں قر آن مجید میں25 جگہوں پر ذکر موجود ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَأَنکِحُوا الْأَیَامَی مِنکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِن یَکُونُوا فُقَرَاء یُغْنِہِمُ اللَّہُ مِن فَضْلِہِ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔
تر جمہ:اور نکاح کردو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ انہیں غنی کردے گا اپنے فضل کے سبب اور اللہ وسعت والا علم والا ہے، (القرآن،سورہ،النور:24آیت32) نکاح کے فوائد ومقاصد اور طریقے قر آن مجیدمیں جگہ25 وآحادیث میں کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔
میریج بیورو، ضرورت رِشتہ کے اشتہار:
دوتین دہائی پہلے تک رشتے کے لیے زیادہ تر لڑکے والے لڑکی والوں کے گھر جاکر رشتے کا پیغام دیا کرتے تھے۔ماں باپ ،سر پرست حضرات پوچھ تاچھ کرکے طے شدہ شادیاں کیا کرتے تھے،اُس میں ماں باپ کی مرضی و خوشی کے ساتھ ساتھ ان کا تجربہ اور دُعائیں شامل رہتی تھیں۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ ضرورت رِشتہ کے اشتہار کے ذریعہ رشتے تلاشِ جانے لگے دور دراز کے رشتوں کو ڈاکٹر،انجینیئر،اکائونٹنٹ وغیرہ کے نام پر رشتے طے ہونے لگے جھولا چھاپ ڈاکٹر کو mbbs, اور دوکان دوکان جاکر دوکان کا حساب کرنے والے منیم جی، کو اکائونٹنٹ بتاکر شادیاں ہونے لگیں،ان میں اکثر شادیاں آگے جاکر نا کام ہونے لگیں،ضروت رشتہ کے اشتہار نے پہلے ہی لکھدیا فریقین کی دی ہوئی جانکاری کی بنیاد پر اشتہار شائع کیا ہے،اگر جانکاری غلط ہوگی تو ادارہ یعنی اخبار ذمہ دار نہیں۔لیجیے جناب اللہ!اللہ! خیر صلاّ، marrriage bureau, والوں نے تو قیامت کا ڈر، اللہ کا ڈر کھو دیا ،لڑکے کی خوبیاںاور لڑ کی کی خوبیاں بیان کر ساتوں ںآسمان کے قلابے ملا دیے جھوٹ سچ بتا کر رشتہ طے کرانے اور اپنی فیس پکی کر نے سے مطلب،آگے آپ جانے آپ کی قسمت اکثر ایسے رشتے آگے جاکر نا کامیاب ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں محلہ محلہ میریج بیرو کے آ فس کھلے ہوئے ہیں اور اب تو دیہاتوں میں میریج بیورو کے آفس کھل گئے ہیں۔اب شادی کرانے کا کام باقاعدہ بزنس بن گیا ہے۔ اس میں گھریلو عورتیں ومردحضرات اِمام و مؤذن صاحبان بھی اس بزنس میں کارخیر کے نام سے کُود کر’’ دودھوں نہائو،پوتوں پھلو‘‘ یہ دعائیہ جملہ ہے جو بڑی بوڑھیاں چھوٹو کے لیے کہتی ہیں،یعنی تم پانی کے بجائے دودھ سے نہا ئو والی مثال میں شرابور ہیں! سوال یہ ہے
کیا میریج بیورو کی کرائی گئیں شادیاں کامیاب ہیں؟
میریج بیورو والوں نے ہر لڑکی کو خوبصورتی میں فلمی ہیروئین کٹرینہ کیف بتا یا،گھریلو سگھڑ بتاکر قصیدے پڑھے، منیم جی، منشی جی کو اکائونٹنٹ بتایا،آفس میں کام کرنے والے کو انجینئر اور نا جانے کیا کیا بتا یالڑکے ،لڑ کی والوں کو راضی کیا،اپنا جوڑا جوتا موزہ سمیت اور فیس پہلے لے لیا ،دعوت اُرائی،آ گے کی کوئی ذمہ داری میری نہیں یاد دلایا چلدیئے۔ چند دن بعد ہی راز کھلا کہ آنجناب اکائونٹنٹ نہیں ایک دوکان میں منشی کا کام کر رہے ہیں ایسے بہت واقعات ہیںو غیرہ وغیرہ ،ماں باپ دھڑام سے نیچے آگرے۔ ماں باپ پر جو قیامت گزری اور بچی کے خواب چکنا چور ہوئے،ضرورت رشتہ و میریج بیورو والوں کو کوئی مطلب نہیں،زمانہ جدید میں نئے نئے ڈھنگ سے ٹھگی کرنے والوں میں کیا اِن کا نمبر نہیں آتا؟۔
قریبی رشتہ دار،دوست واحباب میں شادی کریں:
پہلے رشتے زیادہ تر آپس میں کئے جاتے تھے جن کو لوگ جانے ، پر کھے رہتے تھے۔ دور کے ڈھول سہانے اب بہتر سے بہتر کی تلاش میں بڑے بڑے گڈھے میں گر رہے ہیں،پھر قسمت کا رُونا روتے ہیں۔اللہ خیر فر مائے سبھی ایسے نہیں اِلا ماشا اللہ لیکن زیادہ تر لوگ اپنے کو ٹھگا سا محسوس کرتے ہیں۔ اپنے خون جگر سے پالی ہوئی بچیوں کو ضرورت رشتہ کے اشتہار اور میریج بیورو کی بتائی ہوئی جھوٹی ڈگریوں پر قربان نہ کریں،خوب چھان پھٹک لیں سوبار سوچیں تب قدم آگے بڑھا ئیں کوشش یہ کریں کی اپنی بستی ،اپنے شہر، اپنے خاندان، کے لڑکوں،لڑکیوں کو تر جیح دیں جن کی جانکاری آپ کو رہتی ہے۔اب تجارت کا زمانہ ہے تجارتی اداروں پر بھروسہ کر کے دھوکہ نہ کھائیں جوچمکتا ہے وہ سونا ہی نہیں ہوتا۔یہ کاروبار بہت ترقی پر ہے،’’ ہینگ لگے نہ پھٹکری۔۔۔۔ رنگ بھی آئے چوکھا‘‘ چند دن پہلے ہی فلمی ہیروئین سشمیتا سین نے ٹویٹر پر شادی کے بارے میں مذاق کردیا۔’’ انھوں نے لکھا، جس کسی نے بھی شادی کی رسم ایجاد کی وہ ضرور کوئی گھٹیا انسان ہوگا کہ مجھے تم سے محبت ہے تو میں اس میں دوسرے لوگوں کو گواہ بنائوں تاکہ تم مجھے چھوڑ کر نہ جاسکو‘‘۔ سشمیتا سین نے خود تو شادی نہیں کی، ہو سکتا ہے کہ وہ شادی کے بندھن میں یقین نہ رکھتی ہوں۔ لیکن سماجی زندگی میں شادی کی بہت اہمیت ہے،اس کا مذاق اُڑانا دوسروں کی دل آزاری کے مترادف ہے،ضروری نہیں جو بات ہمیں غلط لگتی ہے وہ دوسروں کے لیے بھی غلط ہو۔ اسی وجہکر سشمیتا سین خوب ٹرول ہوئیں۔ شادی زندگی کی پہلی سیڑھی ہے کوئی کھیل،ہنسی مذاق نہیں۔ضرورت رشتہ ومیریج بیورو کی تشہیر پر بھروسہ نا کریں سوبار سوچیں تب قدم بڑھائیں۔اللہ ہمیں اپنے جگر کے ٹکڑوں لڑکے،لڑکیوں کے بہتر رشتے طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین