خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاکستان
غیروں کے در پہ مانگنے جانا فضول ہے
پتھر کو دل کا حال سنانا فضول ہے
جو بات سن کے کان سے فوراً نکال دیں
ایسوں کو اچھی بات بتانا فضول ہے
دولت ہے زیادہ خرچ غریبوں پہ کیجیے
شادی میں یوں ہی پیسے اڑانا فضول ہے
سیدھا نہیں وہ ہوگا کرو لاکھ کوششیں
کتے کی دم کو سیدھا ہی کرنا فضول ہے
نادان ہے تو وقت کی کرتا نہیں ہے قدر
دن رات تیرا فون چلانا فضول ہے
عزت کی دھجیاں جو اڑاتے ہوں بارہا
ایسوں کے پاس آپ کا جانا فضول ہے
اس سے نشانہ آپ کا چوکے کا بارہا
اندھیرے میں یوں چلانا فضول ہے
رونے سے چیز ملتی ہے واپس نہیں کبھی
فیضان یوں اشک تیرا بہانا فضول ہے