ہم اپنے ہاتھ میں علمی خزانہ لے کے بیٹھے ہیں
رضا کی بارگَہ کا ہم جو صدقہ لے کے بیٹھے ہیں
مچا ہے شور و غوغا رفض کے ایواں میں دیکھو تم
رضا کے شیر کے آنے کا خدشہ لے کے بیٹھے ہیں
نہیں ہمت کسی میں ہے نکل کر سامنے آئے
پکڑ کر چیر دیں گے ایسا پنجہ لے کے بیٹھے ہیں
پڑھاتے ہیں نہیں اختر پلاتے ہیں سنو لوگو!
وہ اپنے دل میں سمجھانے کا ملکہ لے کے بیٹھے ہیں
انہیں عزت ملی شہرت یہ سب فیضانِ اختر ہے
وہ اختر کے جِیالوں کا بھروسہ لے کے بیٹھے ہیں
طحاوی ہو کہ بیضاوی ہدایہ ہو کہ جامی ہو
بساتے دل میں ہیں سب کے وہ ملکہ لے کے بیٹھے ہیں!
مجھے الفت ہے اختر سے وہ اختر کے سپاہی ہیں
کہ اختر کے بھروسے کا وہ تمغہ لے کے بیٹھے ہیں
وہ مفتی ہیں،مناظر ہیں،مدرس ہیں، مصنف ہیں،
مفکر ہیں یہ اوصاف حمیدہ لے کے بیٹھے ہیں
چراغ عظمت اختر بجھانے کے جو درپے ہیں
وہ اپنے ہاتھ میں ذلت کا تمغہ لے کے بیٹھے ہیں
الٰہی ! ان کو عمر خضر دے اور خوب خدمت لے
یہ عرفاؔن دل خستہ تمنا لے کے بیٹھے ہیں