محمد زاہد علی مرکزی( کالپی شریف)
چئیرمین : تحریک علمائے بندیل کھنڈ
بہت سے مفکرین آج کل مسلم قیادت اور حصے دارانہ سیاست کو سرے سے خارج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، انکا ماننا ہے کہ بھارت میں مسلم قیادت صرف ایک خواب ہے اور کچھ نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ بھارتی مسلمان قیادت نہ کرکے اپنے آپ کو نیوٹرل کرلے اور خاموشی کے ساتھ بی جے پی مخالف سمت جاکر اپنا رول ادا کرے،انکے اپنے خدشات ہیں جو ان کی اپنی سوچ کے مطابق درست ہو سکتے ہیں ، ان کی نیتوں پر بھی سوال نہیں کہ وہ قوم مسلم کی بھلائی ہی چاہتے ہیں.
لیکن کچھ چیزیں ہیں جنھیں جاننا ضروری ہے تاکہ قارئین بہتر فیصلہ لے سکیں، ہم نمبر وار ان کا جواب دینے کی کوشش کریں گے.
(1) بھارت میں مسلم قیادت والی سیاست ممکن نہیں.
اس سوال کا جواب تلاشنے کے لیے ہمیں تھوڑا پیچھے جانے کی ضرورت ہے،1947 ء سے پہلے ہی بھارتی سیاست دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی، آزادی کے بعد بھی وہی فکر باقی رہی، شدت پسندوں کو نہ تو ملک کا قانون پسند تھا اور نہ ہی دلتوں، مسلمانوں کو دیے گئے حقوق قبول تھے، چونکہ شدت پسند اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوے تو انھوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور سیاست میں کود پڑے، اب ایک پارٹی شدت پسند تو دوسری اہنسا کا دعویٰ کرنے والی تھی، اس طرح ملک میں مذکورہ فکر کی صرف دو پارٹیاں رہ گئیں، مسلم لیگ یا دیگر چھوٹی پارٹیوں کا وجود ختم ہوگیا،چونکہ دیش نیا نیا آزاد ہوا تھا اور مسٹر گاندھی کے قتل سے تشدد پسند ٹولے عوام الناس کی زد پر آگیے تھے، اس لیے اکثر لوگ اس فکر سے دور ہوگئے،نتیجہ کانگریس معمولی مخالفت (1967 کا الیکشن کانگریس ہار گئی) کے ساتھ بلا شرکت غیر تیس سال تک حکومتی کرتی رہی.
1971 میں کانگریس پھر کامیاب ہوئی لیکن حالات کروٹ لینے لگے اور نئے لیڈر پیدا ہوے جو اپنی قوم کو حقوق دلانے کی بات کرتے تھے، الیکشن میں دھاندلی کو لے کر اندرا گاندھی کے خلاف ملک بھر میں احتجاجات کا سلسلہ شروع ہوا 1975 میں ایمرجنسی، نس بندی جیسے معاملات کی بنا پر 1977 میں کانگریس پھر ہار گئی، لیکن یہ حکومت محض دوسال چلی اور 1980 میں کانگریس پھر کامیاب ہوئی، 1984 میں آپریشن بلو اسٹار ہوا (خالصتانی تحریک کو کچلنے کا نام ہے)سکھ مخالف دنگے ہوے، کانگریس کی شبیہ دن بہ دن خراب ہوتی گئ اور 1980 کی دہائی میں کئی علاقائی پارٹیوں کا جنم ہوا، چونکہ کانگریس کی قد آور لیڈر اندرا گاندھی کا قتل 1984 میں کیا گیا اس لیے عوام کی ہمدردی کانگریس لیے جاگ اٹھی اور کانگریس 1984 کا الیکشن بھی جيت گئی، اور یہ عشرہ 80 سے نوے کا بھی کانگریس کے پاس ہی رہا، لیکن اس دوران صوبائی پارٹیوں نے اپنی پکڑ اتنی مضبوط کر لی تھی کہ اب انھیں نظر انداز کرنا آسان نہیں تھا، جس طرح آج بی جے پی کو ہرانے کے لیے ساری پارٹیاں ایک جٹ ہو رہی ہیں ٹھیک اسی طرح کانگریس کا طلسم توڑنے کے لئے ایک مہا گٹھبندھن بنا جسے "جنتا دل” کا نام دیا گیا، 1989 میں جنتا دل نے کانگریس کو بری طرح ہرایا، جس میں ملک کی ہر چھوٹی پارٹی شریک تھی، لیکن دو سال میں ہی یہ حکومت بھی گر گئی، 1991 میں انتخابی سبھا کے دوران راجیو گاندھی کا قتل ہوا اور کانگریس 232 سیٹ جیت گئی، لیکن اس کے بعد کانگریس کمزور ہوتی چلی گئی.
شدت پسندوں نے اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے اور کانگریس کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپنی آئیڈیا لوجی کے خلاف جاتے ہوئی 1989/90 میں لالو پرساد یادو اور ملائم سنگھ جیسے لیڈروں کو اپنا سپورٹ دے کر وزیر اعلی بنایا اور کانگریس کو اقتدار سے علیحدہ کردیا، اس وقت شدت پسند” جن سنگھ” کو سپورٹ کرتے تھے، جن سنگھ نے 1979 میں اپنا نام بدل کر بی جے پی کرلیا اور یہاں سے بی جے پی نے اپنا سفر شروع کیا جو 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ عروج پر پہنچا، اور سیکولر جماعتوں کی درپردہ محبت سے اسے ہمیشہ طاقت ملتی رہی.
جس طرح شدت پسندوں کی سیاست آسان نہیں تھی اسی طرح قومی جماعتوں کی قیادت والی سیاست بھی آسان نہ تھی، شدت پسندوں نے جس طرح خلوص، صبر کے ساتھ 70 سال کا وقت دیا، اسی طرح قومی جماعتوں نے بھی تیس سے چالیس سال تک صبر، محنت، لگن کے ساتھ کام کیا ہے، جبکہ مسلم قیادت میں کبھی بھی خلوص، دور اندیشی، صبر نہیں دکھا، ہاں جوش ضرور دکھا جو کبھی مسٹر بھیم راؤ امبیڈکر تو کبھی مسلم لیگ اور چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ دکھا، چونکہ جوش میں ہوش کھو بیٹھنا عام بات ہے اس لیے مسلم قیادت چوٹ کھاتی رہی اور کانگریس یا دیگر سیکولر پارٹیاں انھیں ٹھکانے لگاتی رہیں،دلتوں، آدی واسیوں، بیک ورڈ ہر ایک نے اپنی قوم کے نام پر سیاست کی اور کامیاب رہیں اور ہیں، ایسے میں مسلم قیادت بھی کامیاب ہو سکتی ہے.
(2) بات مسلم قیادت کی آتی ہے تو کہا جاتا ہے ممکن نہیں، ایسا کہنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ 3510 میل رقبے میں پھیلے انڈیا کی سیاست ہی ذات پات پر مبنی ہے، جاٹ الگ ہیں، گوجر الگ ہیں، پٹیل الگ ہیں، پاسوان الگ ہیں، 2 فیصد والے اجيت سنگھ، اور 1.80 فیصد والے "راج بھر” 7 فیصد والے” یادَو” 22 فیصد والے دلت (ہرجن) اگر اپنی قوم کے نام پر سیاست کرسکتے ہیں تو 19.26 فیصد والے مسلم کیوں نہیں؟ اور یہ کیوں ممکن نہیں؟ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان جو کھائی ہے اسے پاٹنا ممکن نہیں تو یہی کھائی دلتوں، آدی واسیوں اور اور اَپر کاسٹ میں بھی ہے، پانچ دس فیصد کا فرق ہوسکتا ہے اور یہ معمولی فرق ہمیں پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اپنی قیادت کے لیے کوشش کریے!
پانچ دس سیٹ جیت کر کیا ہوگا؟
(3) مفکرین کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ پورے انڈیا میں کئی صوبوں کی حکومتیں ایسی ہیں جہاں اگر آپ دو سیٹ بھی جیت جائیں تو آپ کنگ میکر ہیں جھارکھنڈ، اترا کھنڈ، گووا، مہاراشٹر، راجستھان، پنجاب، ہریانہ، کیرالہ، کرناٹک، تلنگانا وغیرہ ایسے صوبے ہیں جہاں ایک ایک سیٹ بھی اہمیت رکھتی ہے، جتنا فائدہ رولنگ پارٹی اٹھاتی ہے کبھی اتنا اور کبھی اس سے زیادہ یہ چھوٹی پارٹیاں اٹھاتی ہیں اور اپنی قوم کو فائدہ پہنچاتی ہیں، اگر ان صوبوں میں مسلم قيادت کو ہم سپورٹ کریں تو ہم حکومت میں حصے دار ہونگے اور بہت حد تک کامیاب سیاست کریں گے، کچھ وقت پہلے جھارکھنڈ میں ایک آزاد امیدوار وزیر اعلی بننے میں کامیاب ہوگیا تھا، بڑے صوبوں میں جب نتیجہ واضح نہ ہو تو پھر چھوٹی پارٹیاں بڑا کمال کرتی ہیں 2003 میں اتر پردیش میں الیکشن ہوے اکثریت کسی کے پاس نہ تھی، پہلے مایاوتی نے بی جے پی کی مدد سے حکومت بنائی اور چند ماہ بعد اگست 2003 ہی میں ملائم سنگھ نے حکومت بنائی، بی جے پی کا درپردہ یہاں بھی ساتھ تھا، لیکن چھوٹی پارٹیوں کی بلے بلے ہوگئ تھی، دیگر پارٹیوں سے جتنے بھی ایم ایل اے آئے سبھی کو منتری بنایا گیا اور 97 منتری بنائے گئے، اتنے منتری اتر پردیش کی سیاست میں آج تک نہیں ہوے.
انڈیا کے 29 صوبوں میں سے اگر ایسی حالت پانچ سات صوبوں میں ہوجائے کہ کسی کو واضح اکثریت نہ ملے تو ہماری قوم اور مسلم قیادت کو وہ فائدہ ہوگا جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے، ایک طرف پورے ملک میں قیادت کھڑی ہوگی تو دوسری طرف سیکولر پارٹیاں بھی ہمیں اتحاد میں شامل کریں گی یا ہماری قوم کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں گی، جو ابھی تک سیکولر، غلامی والی سیاست سے نہیں ملا ہے.
آخری بات
(4)میں مجلس کا سپورٹ تو نہیں لیکن سچ یہی ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین سے قبل جتنی بھی مسلم پارٹیاں وجود میں آئیں انھیں وہ مقبولیت نہیں ملی جو اس پارٹی کو ملی ہے، اور اسد الدین اویسی جیسے قابل لیڈر انڈین مسلم سیاست نے اکا دکا ہی دیکھے ہیں، آج پورے ملک میں مجلس اتحاد المسلمین جس تیزی کے ساتھ مسلم نوجوانوں کے دلوں میں گھر بنا رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اب اس پارٹی کی مخالفت کی بجائے مناسب انداز میں حمایت کی جائے،پارٹی کی خاص بات پر توجہ کی ضرورت کہ یہ پارٹی اوقات سے زیادہ سیٹوں پر نہیں لڑتی، اس لیے بھی نتیجہ بہتر رہتا ہے، احمدآباد بلدیہ الیکشن میں پارٹی پہلی بار اتری 21 سیٹوں پر امید وار اتارے اور 8 سیٹ جیت گئی ہے 2 لاکھ 68 ہزار سے زائد ووٹ پائے ہیں، آج ملک کے مختلف صوبوں میں پارٹی کا اثر دیکھا جارہا ہے جو مسلم قیادت کے لیے بہتر ہے، اگر آج ہم نے پھر مسلم قیادت کا ساتھ نہ دیا اور قیادت بکھری تو پھر اٹھنے والی نہیں ہے،جو غلطی آزادی کے بعد سے کر رہے ہیں وہ اب اور کرنے کی ضرورت نہیں ہے. ورنہ ع
ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں.
ہمارے مفکرین سوچتے ہیں کہ اگر ہم ایک ہوے تو وہ بھی ہوجائیں گے، میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک ہونگے لیکن وقتی طور پر، انکا اتحاد ہمیشہ کے لیے ناممکن ہے جو وزیر اعلی بن چکا ہو کیا وہ اس سے کم پر راضی ہوگا؟ انکے کام تو اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی ہوجاتے ہیں، اور عزت بھی رہتی ہے لیکن جو اختیارات وزیر اعلی کو حاصل ہیں وہ انھیں نہیں مل سکتے ، نہ وہ سکیورٹی، نہ حکومتی عملہ، نہ آگے پیچھے شمار نہ کی جانے والی گاڑیاں، نہ اپنی قوم کو کوئی خاص فائدہ پہنچانے کی قوت، نہ عوام کا ازدحام، نہ آپ کے نکلنے سے روڈ جام، نہ ریلیاں کرنے کا اذن عام، نہ ہی وہ آؤ بھگت اور نہ ہی سیاسی گلیاروں میں وہ مقام، وقتاً فوقتاً ودھان سبھا، لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مخالفت پر جو بے عزتی اٹھانا پڑتی ہے وہ الگ، اور رولنگ پارٹی کے لیڈروں کے غلط بیانات، چھنیٹا کشی، آپسی رنجش وغیرہ سب تو ہوتا ہے، اعظم خان، محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ، سابق ہوم منسٹر پی چدمبرم، لالو پرساد یادو کیا یہ سب سیاسی دشمنیوں کے شکار نہیں ہوے ؟ اگر یہ سب چاہیے، سیاسی بدلہ لینا ہے تو پھر یہ سب کچھ صرف وزیر اعلی یا مرکزی حکومت ہوتے ہوئے ہی ہوسکتا ہے، اس لئے ان کا اتحاد زیادہ چلنے والا نہیں ہے، سیدھی بات یہ ہے کہ مسلم قیادت ہونے سے مسلمانوں کا ہرطرح سے فائدہ ہی فائدہ ہے، جو ہمیں ووٹ لیکر بھول جاتے تھے وہ یاد رکھیں گے، ہمارے مسلم لیڈران کے پاس ایک اضافی جگہ ہوگی جہاں وہ کبھی بھی جا سکتے ہیں، نتائج واضح نہ ہونے پر منھ مانگی شرائط پر سپورٹ کریے اور قوم کو فائدہ پہنچائیے، جب بھی آپ کو نظر انداز کیا جائے وزیر اعلی کو "ادنی” بنا دیجئے، شرع مطہر کے خلاف کوئی قانون پاس نہیں ہوگا، یہ سارے امکان مسلم قیادت سے ممکن ہیں اور اگر قیادت نہ ہوئی تو ایسی ہی قتل و غارت گری دیکھتے رہیے، اسلام کے خلاف قانون پاس ہوتے دیکھتے رہیے اور ڈر ڈرکر جیتے رہیے، لنچنگ کا شکار ہوتے رہیے اور ہاں! اپنی باری کا بھی انتظار کرتے رہیے!!!
نوٹ : جس طرح مفکرین کے خدشات وہمی ہیں، اسی طرح ہماری توقعات بھی وہمی ہیں، اگر مفکرین کے خدشات یقینی ہیں کہ مسلم سیاست سے ” قیامت” آجائے گی، تو ہماری توقعات بھی یقینی ہیں کہ مسلم سیاست سے "قیادت” آجائے گی، سب کچھ خود ہی مت سمجھئے تھوڑا اللہ پر بھی بھروسا رکھیے.