تحریر: امتیاز احمد
کالم نویس و افسانہ نگار: پاکستان
ہمارا زمانہ بھی عجیب تھا۔ انٹر میڈیٹ میں 60 فی صد نمبرز آنے پر ، محض چند ساعتوں میں ، پورے محلے میں خبر پھیل جاتی ، کہ فلاں کے بیٹے یا بیٹی نے 60 فی صد نمبرز لیے ہیں ۔ 70 فی صد نمبرز لینے پر گھر والوں کا سینہ چوڑا ہو جاتا ، کہ ہماری اولاد کافی ذہین ہے ۔ اور اگر کوئی 80 فی صد نمبرز لینے میں کامیاب ہو جاتا ، تو اسے پورے گاؤں کا ذہین طرین اور فطین بچہ یا بچی سمجھ کر ، اس کے گیت گائے جاتے ۔ گھر والے اس کے قصیدے سنتے سناتے نہیں تھکتے تھے ۔ یہ خبر جان بوجھ کر اپنی برادری اور رشتہ داروں میں راتوں رات پھیلا دی جاتی ، کہ فلاں کے بیٹے یا بیٹی نے 80 فی صد نمبرز لیے ہیں ۔ اس کے عوض اسے بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی طرف سے ، کوئی چھوٹے موٹے تحفے تحائف بھی عنایت کیے جاتے ۔
اب زمانہ بدل چکا ہے ۔ ایک دہائی سے ہم سب اس امر کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں ، کہ 1100 میں سے 1050 یا اس سے کچھ زائد نمبرز لینے والے طلباء و طالبات کی ، بورڈ میں کوئی یقینی پوزیشن آجاتی تھی ۔ اس ساری صورتحال میں ایک بورڈ دوسرے بورڈ کو مات دینے کے لیے ، کسی ایک آدھ طالب علم کو ایک اضافی نمبر دے کر ، اپنے رتبے اور وقار کو نمایاں کر لیتا ۔ ایسے میں ہر بورڈ کے پاس ایک اختیار باقی بچ جاتا رہا ہے ، کہ وہ جب مرضی ایک آدھ نمبر زیادہ دے کر کسی بھی بورڈ کو شکست دے سکتا تھا ۔ لیکن اب وہ اختیار بھی باقی نہیں بچا ۔ 2021ء کے نتائج میں 1100 میں سے 1100 نمبرز دے کر بورڈز نے اضافی نمبرز دینے کے ریکارڈز توڑ دیے ۔
اب 70 سے زائد طلباء ایسے ہیں جو پورے پورے نمبرز لینے کے بعد ، اس سوچ میں گم ہیں، کہ ان 70 میں سے ٹاپر کون ہے ۔ راقم کی نظر میں ان 70 سے زائد لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔ کل کلاں کو ان میں سے ایک بھی” افلاطون ” اگر کسی بڑی کلاس کے کسی بڑے پیپر میں نمایاں نمبرز نہ لے سکا ، یا فیل ہو گیا ، تو اس پر سارے راز افشاں ہو جائیں گے ۔ ہمارا تعلیمی نظام رٹے باز طوطے پیدا کر رہا ہے ۔ مستقبل میں جہاں بھی ان کی چونچ میں کوئی چیز اٹک گئی ، یہ بولنا بھول جائیں گے ۔ ہم انہیں دو جمع دو ، چار تو سکھا رہے ہیں ، لیکن انہیں اس قابل نہیں بنا رہے کہ وہ دو جمع دو ، پانچ بھی کر دکھائیں ۔
ان کی مقداری ذہانت میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ لیکن معیاری ذہانت میں وہ بہت پیچھے جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ کچھ ڈیپارٹمنٹس میں نوکری مقداری ذہانت یعنی نمبروں کی بنیاد پر دی جاتی ہے ۔ کوئی استاد بنے گا ، کوئی ڈاکٹر بنے گا ، کوئی انجینئر بنے گا ، کوئی وکیل بنے گا ، کوئی کسی بیلٹ فورس کا حصہ بنے گا ۔ لیکن کوئی اقبال بنتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ کوئی آزاد یا حالی بنتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ کوئی ڈاکٹر قدیر یا عبدالسلام بنتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے ہم طلباء کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنا چاہ رہے ہیں ۔ عجیب فارمولے کے تحت مارکس کو تقسیم کیا گیا ہے ۔ سننے میں آ رہا ہے کہ ، ایبٹ آباد میں کسی کو 1100 میں سے 1150 نمبرز بھی دے دیے گئے تھے ۔ پھر اچانک اس کا رزلٹ ہٹا دیا گیا ۔ بنیادی طور پر جن لوگوں کے پارٹ 1 میں جتنے نمبرز تھے ، انہیں پارٹ 2 میں اتنے ہی نمبرز دینے کے بعد ، مزید 5 فی صد نمبرز اضافی دیے گئے ۔ ریاضی کے مقابل اردو کو رکھا گیا تھا ۔ جس کے ریاضی میں 100 نمبرز آئے ، اسے اردو میں بھی 100 ہی نمبرز دے دیے گئے ۔ اردو کا اسٹوڈنٹ ہونے کے ناطے ، راقم حیران بھی ہے اور خوش بھی ۔ کہ شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے ، کہ اردو میں بھی 100 میں سے 100 نمبرز دیے گئے ہوں ۔
دست بستہ گزارش ہے کہ ذہانت کو ماپنے کے مقداری پیمانے توڑ دیے جائیں ، اس کام کے لیے معیاری پیمانے ایجاد کر لیے جائیں ۔ تاکہ کسی کی ذہانت اس کی اپنی نظروں میں بھی مشکوک نہ رہے ۔ اور کل کلاں کو کسی طوطے کی چونچ میں کوئی چیز نہ اٹکے ، جو اسے بولنے سے روکے یا محروم کر دے ۔
ن ۔ م راشد کی نظم ” اندھا کباڑی ” یاد آ رہی ہے ۔
اس میں وہ گلیوں میں خواب بیچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ خواب بیچنے کے لیے وہ آواز لگاتے ہیں کہ ، ” خواب لے لو خواب ” ۔ تازہ ترین صورتحال بھی بالکل ویسی ہی ہے ۔ جس میں آواز لگائی جا رہی ہے کہ ، نمبر لے لو نمبر ۔ نمبروں کی اس نظم کے ، لکھنے والے کا پتا نہیں چل رہا ۔ لیکن نظم کا عنوان بہت زبردست ہے ۔ وہ ہے ” نمبر لے لو نمبر”۔