ازقلم: محمد عاصم القادری رضوی، ساکن: تھانولہ، مرادآباد
متعلم: جامعہ رضویہ برکات العلوم سہسوان بدایوں شریف
مرے نبی کا جو معجزہ ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
جو شاہِ بغداد کی عطا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
عجم ہے اس کا عرب ہے اس کاہے سارے عالم میں دھوم اس کی
ہراِک زباں پر یہی صدا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
محبتِ مصطفی میں اس نے گزارا اپنا ہر ایک لمحہ
نبی پہ جو جان سے فدا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
دلوں میں عشقِ محمدیﷺکا چراغ روشن کیا ہے جس نے
نبی کی الفت میں جو فنا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
نبی کا سچا غلام ہے وہ کہ عاشقوں کا امام ہے وہ
زمانہ جس پر فدا ہوا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
وہ ہے مجدد ، وہ ہے مفسر ، تمام علموں میں وہ ہے ماہر
کہ اعلی حضرت لقب ملا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
وہ کون ہے جس نے بخشی راحت ،ملے گی جس کے طفیل جنت
تو جھوم کر دل نے یہ کہا ہے مرا رضا ہےمرا رضا ہے
نبی کی اس نے کی ایسی مدحت کہ سارا عالم ہے محوِ حیرت
جسے ہوٸی دیدِ مصطفی ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
غلامِ احمد کا یار ہے وہ برائے غدار خار ہے وہ
نبی کے دشمن سے جو خفا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
منافقوں ، نجدیوں کو جس نے قلم سے اپنے کیا ہے زخمی
وہابیوں کو کچل دیا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
خدا بھی اس سےہوا ہے راضی ، زمیں ہے راضی زمانہ راضی
نبیِّ اکرم کی جو رضا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
جسے کچھوچھہ کی اک زباں نے ، قطب کہا اشرفی میاں نے
ہر اک ولی نےادب کیا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
ادب کیا سیدوں کا ایسا مثال جس کی کوئی نہ لایا
جو سیدوں پر فدا ہوا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے
ہیں جان سے بڑھ کے پیارے آقا سکھایا جس نے ہمیں یہ عاصم
نبی سے جس نے ملا دیا ہے مرا رضا ہے مرا رضا ہے