تحریر: نعیم الدین فیضی برکاتی
اعزازی ایڈیٹر:ہماری آواز
پرنسپل:دارالعلوم برکات غریب نواز احمد نگر کٹنی (ایم۔پی)
9792642810
mohdnaeemb@gmail.com
اس خاک دانِ گیتی پر بے شمار عظیم انسان آئے اور اپنے حیات مستعار کے ایام یہاں گزار کر دارِ بقاکی طرف کوچ کر گئے۔ان میں سے اکثر کی حیات وخدمات کے متعلق تاریخی صفحات میں کچھ نہیں ملتااور انسانی یادداشت کے نہاں خانوں میں بھی ان کوجگہ نہیں ملی۔مگر اسی دنیا میں بعض ایسی ہمہ جہت اور نابغہ روزگار شخصیتیںپیدا ہوئیں ہیںجن کے انقلابی اورغیرمعمولی اصلاحی خدمات نے حیاتِ انسانی پر اتنے گہرے اثر چھوڑے ہیں کہ ان کا تذکرہ کیے بغیر انسان کے لیے ایک دن بھی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔اپنے تو اپنے اغیار ومخالفین بھی ایسے مثالی لوگوں کی فضیلت وعظمت کا معتقد ومعترف ہونے سے اپنے آپ کونہیں روک پاتے۔انہیں بعض لوگوں میں ایک مفکر ومدبر،علم ریاضی وسائنس کا ماہر،علوم عقلیہ و نقلیہ کا امین،شہنشاہ شعر وسخن ،امام اہل سنن،مجدد دین وملت،اعلیٰ حضرت امام احمد رضافاضل بریلوی(1856-1921)کی ہمہ جہت شخصیت ہے،جن کے مثالی کارناموں نے اپنوں اور غیروں دونوں کو یکساںطورپر متأثر کیا ہے۔
اعلیٰ حضرت اکابر علماے دیوبند و اہل حدیث کی نظر میں
مولانا قاسم نانوتوی(1832-1880) کا موقف:
دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحب دہلی تشریف رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مولانا حسن امروہوی اور امیر شاہ خان صاحب بھی تھے۔شب کو جب سونے لگے توان دونوں نے اپنی چارپائی ذرا الگ کو بچھائی اور باتیں کرنے لگے۔امیر خان صاحب نے مولوی صاحب سے کہا کہ صبح کی نماز ایک برج والی مسجد میں چل کر پڑھیں گے ،سنا ہے کہ وہاں کے امام صاحب قرآن بہت اچھا پڑھتے ہیں ۔مولوی صاحب نے کہا ارے جاہل پٹھان(آپسی بے تکلفی کی وجہ سے)ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو مولانا نانوتوی کی تکفیر کرتا ہے۔اس بات کو مولانا نوتوی نے سن لیا اور زور سے فرمایا:’’احمد حسن!میں تو سمجھتا تھاتو پڑھ لکھ گیا ہے مگر جاہل ہی رہا۔پھر دوسروں کو جاہل کہتا ہے۔ارے! کیا قاسم کی تکفیر سے وہ قابل امامت نہیں رہا۔میں تو اس سے اس کی دین داری کا معتقد ہو گیا۔اس نے میری کوئی ایسی بات سنی ہوگی جس کی وجہ سے میری تکفیر واجب تھی۔گو روایت غلط پہنچی ہو،تو یہ راوی پر الزام ہے۔تو اس کا سبب دین ہی ہے۔اب میں ان کے پیچھے نماز پڑھوں گا ‘‘۔(الافاضہ الیومیہ من افادات القومیہ چہارم،ص:394)
حکیم الامت اشرف علی تھانوی (1863-1943)کا نظریہ:
خلیفہ تھانوی مفتی محمد حسن بیان کرتے ہیںکہ حضرت تھانوی صاحب نے فرمایا:’’اگر مجھے مولوی احمد رضا صاحب بریلوی کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملتا تو میں پڑھ لیتا‘‘۔ (اسوہ ٔاکابر،ص:7)
دیوبندی عالم کوثر نیازی لکھتے ہیں:مفتی اعظم پاکستان حضرت مولاناشفیع دیوبندی سے میں نے سنا کہ جب مولانا احمد رضا صاحب کی وفات ہو گئی تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو آکر کسی نے اطلاع کی۔مولانا تھانوی بے اختیار دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔حاضرین مجلس ہی میں سے کسی نے پوچھا کہ وہ تو عمر بھر آپ کو کافر کہتے رہے اور آپ ان کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں!فرمایا:’’یہی بات سمجھنے کی ہے۔مولانا احمد رضا نے ہم پر کفر کے فتوے اس لیے لگائے کہ انہیں یقین تھا کہ ہم نے توہین رسول کی ہے۔اگر وہ یقین رکھتے ہوئے ہم پر کفر کا فتوی نہ لگاتے تو وہ خود کافر ہو جاتے‘‘۔(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت،ص:7)
مولانا انور شاہ کشمیری دیوبندی (1875-1933)لکھتے ہیں:’’جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروحات لکھ رہا تھاتو حسب ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت در پیش آئی تو میں نے شیعہ حضرات،اہل حدیث حضرات اور دیوبندی حضرات کی کتا بیں دیکھیں ۔مگر ذہن مطمئن نہ ہوا۔بالآخر ایک دوست کے مشورے سے مولانااحمد رضا خان کی کتابیں دیکھیںتو میرا دل مطمئن ہوگیاکہ اب بخوبی احادیث کی شروح بلا جھجھک لکھ سکتا ہوں۔تو واقعی بریلوی حضرات کے سر کردہ عالم مولانا احمد رضا خان صاحب کی تحریریںششتہ اور مضبوط ہیں جسے دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا ایک زبردست عالم دین اور فقیہ ہیں‘‘۔(رسالہ ہادی دیوبند،ص:7)
مولانا شبلی نعمانی صاحب(1857-1914) لکھتے ہیں:’’مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی جو اپنے عقائد میںسخت ہی متشدد ہیں۔مگر اس کے باوجود مولانا صاحب کا علمی شجر اس قدر بلند درجہ کا ہے کہ اس دور کے تمام عالم دین اس مولوی احمد رضا صاحب کے سامنے پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔اس احقر نے بھی آپ کی متعددکتابیں دیکھی ہیں‘‘۔(رسالہ ندوہ۔اکتوبر 1994ص:17)
مولانا ابوالحسن ندوی صاحب(1914-1999) لکھتے ہیں:’’فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر جو ان (فاضل بریلوی)کو عبور حاصل تھا ،اس زمانہ میںاس کی نظیر نہیں ملتی‘‘۔نزھۃ الخواطرہشتم ص:41)
مولوی معین الدین ندوی صاحب(1903-1974) لکھتے ہیں:’’مولانا احمد رضاخان مرحوم صاحب علم و نظر مصنفین میں سے تھے۔دینی علوم خصوصاً فقہ و حدیث پر ان کی نظر وسیع اور گہری تھی۔مولانا نے جس دقت نظر اور تحقیق کے ساتھ علمائے استفسار کے جواب تحریر فرمائے ہیں ،اس سے ان کی جامعیت ،علمی بصیرت،قرآنی استحضار،ذہانت اور طباعی کا پورا پورا اندازہ ہوتا ہے۔ان کے عالمانہ و محققانہ فتاوی مخالف و موافق ہر طبقہ کے لائق ہیں‘‘۔(سفید وسیاہ۔ص:114)
بانی تبلیغی جماعت مولوی محمد الیاس صاحب (1885-1944)کے متعلق محمد عارف رضوی لکھتے ہیں:’’کراچی میں ایک عالم دین نے،جن کا تعلق مسلک دیوبند سے تھا،فرمایاکہ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس صاحب فرماتے تھے : اگر کسی کو محبت رسول سیکھنی ہو تو وہ مولانا احمد رضابریلوی سے سیکھے‘‘
۔(فاضل بریلو
ی اور ترک موالات۔ص:100)
سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب(1903-1979) لکھتے ہیں:’’مولانا احمد رضا خان صاحب کے علم وفضل کا میرے دل میں بڑا احترام ہے ۔فی الواقع وہ علوم دینی پر بڑی نظر رکھتے ہیں اور ان کی فضیلت کا اعتراف ان لوگوں کو بھی ہے،جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔نزاعی مباحث کی وجہ سے جو تلخیاں پیدا ہوئیں،وہی دراصل ان کے علمی کمالات اور دینی خدمات پر پردہ ڈالنے کا موجب ہوئیں‘‘۔(سفید و سیاہ،ص:112)
اوپر کی متذکرہ عبارتوں سے یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی کی شخصیت اکابر علماے دیوبندواہل حدیث کے نزدیک معتبر و مسلم ہے اور آپ کی علمی سطوت اور آپ کے دینی ،تصنیفی اور اصلاحی خدمات کے ساتھ ساتھ،چاہے وہ مخالفین میں سے ہوں یا موافقین سے ہر کوئی آپ کی عظیم المرتبت شخصیت سے متأثر اور آپ کا مدح خواں تھا۔مگر افسوس!ملت اسلامیہ کا وہ عظیم محسن حوادث ِزمانہ کا شکار ہوگیا۔اس کی دینی اور مثالی تصنیفی خدمات کو ایک منظم سازش کے تحت گمنامی کے پردے میں پوشیدہ کر دینے کی بے جا کوشش کی گئی ۔اس پر طرہ یہ کہ ان کے عظیم خدمات پر داد تحسین دینے کے بجائے انہیں ایک اختلافی اور نزاعی شخصیت بنا کر متعارف کرانے کی ایک مہم چلائی گئی ۔ تعصب اور تنگ نظری کے توپ سے بدعات وخرافات کے الزام کے گولے بھی آپ پرداغے گئے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی ایک تنگ نظر ،کم علم ،جھگڑالو اور بات بات پر فتوی صادر کر دینے کی عادت رکھنے والے شخص تھے۔اس الزام تراشی میں کچھ اپنے احباب بھی شامل ہیںجن کی عادت امت کے مسائل کو بالائے طاق رکھ کر فرقہ فرقہ کھیلنے کی ہے اور کچھ نام نہاد آپ کے نام کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے مگر انہیں دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے اعمال وکردار سے اعلیٰ حضرت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے آج تک کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات نتیجتاً سامنے آئے گی کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور آپ کے قابل رشک عظیم کارناموں کو پردۂ خفا میں رکھنے کے لیے جتنی طاقت وقوت اور توجہ توانائی کا مظاہرہ اپنوں اور غیروں کی سردمہری اور تعصب کے نتیجہ میںکیا گیا ہے اگر اتنی طاقت امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل پر کی جاتی اورانہیں جہالت وگمراہی کی زبوں حالی سے نکال کر تعلیم و ترقی کے راستے پر گامزن کرنے پر دھیان دیا جاتاتو آج مسلمانوں کی حالت رشک کرنے کے لائق ہوتی۔