از : فریدی صدیقی مصباحی مسقط عمان
درگاہِ بِلگرام کے روحِ رَواں چلے
افسوس ہمکو چھوڑ کے طاہر میاں چلے
عکسِ جمالِ واحد و طیب تھی جن کی ذات
باغِ شَرَف کے وہ گُل عالی نشاں چلے
بیچین ہیں تمام مُحِبّانِ خانقاہ
ہر آنکھ ڈھونڈھتی ہے کہ حضرت کہاں چلے
یاد آتی ہے وہ رحمت و شفقت بھری نظر
زخمی دلوں کے آہ وہ راحت رساں چلے
بزمِ جہاں اداس ہے ان کی وفات پر
اہلسنن کے لب پہ ہے آہ و فغاں ، چلے
ظلّ کرم سے سب کو وہ کرتے تھے مُشکبار
بن کر سدا وہ اک شجرِ گلفشاں چلے
فکر رضا تھی جن کی اداؤں کا بانکپن
دیتے ہوئے وہ عشقِ نبی ﷺ کی اذاں چلے
مہتابِ زندگی سے عیاں اسوۂ رسول
دائم وہ راہِ سنتِ شاہِ زماں چلے
نسبت تو دیکھو ، ماہِ محرم کی سات کو
چرخِ حسینیت کے وہ مہر عیاں چلے
وہ نرم نرم لہجہ ، وہ گُل ساز گفتگو
روتے ہیں جان و دل کہ وہ شیریں زباں چلے
فضلِ خدا سے انکی لحد ہو چمن نظیر
ان پر ہمیشہ بارشِ ابرِ جناں چلے
گلزار واحدی کی سلامت رہے بہار
جب تک فریدی نبضِ زمین و زماں چلے