زندگی اور موت کا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے، اسلام نے کسی کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرکے خود کو قتل کرنے کے عمل کو حرام قرار دیا ہے،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات ظاہر ہے کہ انسان اپنے جسم و جان کا مالک نہیں ہوتا،نہ دنیا میں آنے میں اس کی مرضی شامل تھی اور نہ اپنی مرضی سے اس دنیا سے جانے کا اختیار اس کو حاصل ہے،یہ جسم و جان اللہ کا دیا ہوا عطیہ ہیں اس کو ختم کرنے کا انسان کو اختیار حاصل نہیں۔ موجودہ وقت میں قتل اور خودکشی کے واقعات میں اضافہ ملت کے لئے سوہان روح ہے۔
کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔قرآن و حدیث میں اس گناہ پر بہت سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کابدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے،جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کوبچایا اس نے سب لوگوں کوبچایا۔حضرت ابوہریرہؓ ُ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن قاتل کو ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا۔حضرت عبداللہ بن عمر وؓ سے مروی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے کسی نے سوال کیا کہ کیاقاتل کی توبہ قبول ہوگی؟ حضرت ابن عباس ؓ نے حیرت سے پوچھا تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس شخص نے پھر وہی سوال دہرایا،آپؓ نے فرمایا تم کیا کہہ رہے ہو؟ یہ آپؓ نے دو یا تین مرتبہ فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا کہ میں نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مقتول قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ ایک ہاتھ میں اپنا کٹا ہو اسر لٹکائے ہوئے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے قاتل کا گریبان پکڑے ہوگا اور اس کی شہہ رگ سے خون ابل رہا ہوگا،اسی حال میں وہ قاتل کو عرش کے پاس لے جائے گا اور کہہ گا رب العامین یہی وہ ہے جس نے مجھے قتل کیا۔اللہ تعالیٰ قاتل سے فرمائے گا تو ہلاک ہوا، پھر اس کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ جب کسی دوسرے کو جان سے مارڈالنا بڑا گناہ اور حرام ہے تو کسی انسان کا خود اپنے آپ کو مارڈالنا کتنا بڑا حرام کام اور کیسی گھناؤنی حرکت ہوگی،اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس قسم کی مذموم حرکت وہی کرے گا جس کا دامن ایمان کی پونجی اور عقل و ہوش کی دولت سے خالی ہوگا یا پھر اللہ تعالیٰ پر اس کا ایمان اتنا کمزور ہوگا کہ اس قسم کے فعل بد کے ارتکاب سے اس کا ضمیر اس کو روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہوگا اور اس کی بے ایمانی، بد حواسی اور نادانی اس کو خود کشی پر آمادہ کرتی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،اور اپنے آپکو قتل نہ کرو یقینا اللہ تم پر نہایت مہربان ہے۔اور جو شخص یہ (نافرمانیاں)سرکشی اور ظلم سے کریگاتو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کرینگے اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت فرماتے ہیں کہ ہم نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس نے اپنے آپکو پہاڑ سے گرا کر قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ گرتا رہیگا۔اور جس نے زہر پی کر اپنے آپکو قتل کیا تو جہنم کی آگ میں زہر ہاتھ میں پکڑ کر اسے ہمیشہ پیتا رہیگا،اور جس نے لوہے کے ہتھیار کے ساتھ اپنے آپکو قتل کیا تو وہ ہتھیار اسکے ہاتھ میں ہوگا اور ہمیشہ وہ اسے جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ میں مارتا رہیگا۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ سب سے بڑی وجہ عوام الناس کی اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دوری،صبر و تحمل کی کمی،دنیاوی خواہشات اور اسکے وسائل کی کمی،گھریلوے جھگڑے،قرضوں کا بوجھ، بیماریوں اور مصیبتوں سے تنگ آکر ہار ماننا،کاروبار و تجارت میں پریشانی،ذریعہ معاش کا نہ ہونا،اپنی پسندیدہ شادیوں کے مطالبات،امتحانات و ملازمت میں ناکامی و مہنگائی جیسے وجوہات سے لوگ تنگ آکر ذہنی پریشانی و دباؤکا شکار ہو کر خودکشی جیسے اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔لیکن اگر انسان ان مشکلات میں صبر کو اپنائے اور اللہ کی رحمت کا طلبگار رہے تو وہ اس گناہ کبیرہ اور عذاب جہنم سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
کسی بھی انسان کو قتل کرنا تو درکنار، ہم کسی بھی حال میں کسی بھی انسان کے قتل میں کسی بھی نوعیت سے معاون ثابت نہ ہوں تاکہ ہم آخرت میں دردناک عذاب سے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام گناہوں سے محفوظ رہ کر یہ دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں دونوں جہاں میں کامیابی عطا فرمائے۔
از افادات: (مولانا)سید محمد علی قادری الہاشمی