حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ناخوشگوار واقعہ سامنے آیا جس میں ایک نامور خطیب نے ایک معروف نعت خواں کی اصلاح کرنے کے لئے سخت لہجہ اپنائے، اگرچہ نیت اصلاح ہی تھی اور یہ عمل اسلامی نقطۂ نظر سے درست بھی ہے، مگر اس طرز عمل کے اثرات معاشرتی اعتبار سے نہایت منفی ثابت ہو سکتے ہیں۔
اصلاح یا فتنہ؟
علماء و مصلحین کا مقصد لوگوں کو دین کے اصولوں پر گامزن کرنا ہوتا ہے، جب اصلاح سخت الفاظ یا عوامی سطح پر کی جائے تو اس کے اثرات برعکس ہو سکتے ہیں، لوگوں کے ذہنوں میں بدگمانیوں کو جنم دیتے ہیں اور دین سے دوری کا باعث بن سکتے ہیں۔ اور کبھی کبھی یہ صورت حال تسلسل کے ساتھ اختیار کر جاتی ہے، جس سے معاشرے میں فتنہ و فسادات بھڑک اٹھتے ہیں۔
اصلاح کا مناسب طریقہ:
اسلامی تعلیمات ہمیں نرمی اور دانائی سے اصلاح کا سبق دیتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ اصلاح میں سب سے بہترین مثال ہے۔ آپ ﷺ نے کبھی بھی کسی کو سرِ عام ذلیل یا رسوا نہیں کیا بلکہ نرمی اور پیار سے لوگوں کی رہنمائی فرمائی۔
حدیث پاک ہے:
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ ، حَدَّثَنِي ابْنُ الْهَادِ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ عَمْرَةَ يَعْنِي بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ، وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ»
ترجمہ: حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ نے فرمایا: "اے عائشہ! بیشک اللہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے، اور نرمی پر وہ انعام عطا فرماتا ہے جو سختی پر عطا نہیں فرماتا اور نہ ہی کسی اور چیز پر عطا فرماتا ہے۔”(صحيح مسلم ، كتاب البر والصلة والآداب، باب فضل الرفق، الرقم:2593 – ط التركية)
اعلیحضرت امام اہلسنت الشاہ احمد رضا خاں قادری قدس سرہ العزیز اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں: دیکھو نرمی کے جو فوائد ہیں، وہ سختی میں ہرگِز حاصِل نہیں ہو سکتے اھ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص:90، ط: مکتبۃ المدینہ کراچی)
__ آج کے دور میں بھی ہمیں چاہیے کہ اگر کسی میں کوئی کمی نظر آئے تو اسے انفرادی سطح پر محبت اور شفقت سے سمجھائیں۔ اگر عوامی فورم پر کسی کی اصلاح ضروری ہے، تو اسے نرم اور معزز انداز میں پیش کریں تاکہ سننے والے کو اس سے فائدہ ہو اور غلط فہمیوں کی بجائے مثبت سوچ پروان چڑھے۔
سوشل میڈیا اور ذمہ داری:-
آج کل علماء کے بیانات سوشل میڈیا پر ہوتے ہیں۔ اس سے اس کا طرز عمل خاص اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے کہ یہ ایک کھلا میدان ہے۔ جہاں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔ بیانات اور اصلاحی کام کو عوامی مقام پر کرنے سے پہلے ان کی اپنی ایک ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاشرتی اثرات کا جائزہ لیں۔ اس فورم پر اصلاحی عمل کو عام گفتگو یا بیان کے طور پر نہیں پیش کرنا چاہیے بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے اثرات ایک فرد تک محدود نہیں رہتے، بلکہ اس کا اثر پورے معاشرے پر ہوتا ہے۔
الحاصل: معاشرے میں اصلاح کا عمل نہایت اہم ہے مگر اس کا طریقۂ کار ایسا ہونا چاہیے جو کہ لوگوں کو دین سے قریب کرے نہ کہ ان میں دوری پیدا کرے۔ لہٰذا علماء و خطباء کو چاہیے کہ ایسی بیان بازی سے گریز کریں جس سے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوں۔ نرمی، شفقت اور حکمت سے کی گئی اصلاح نہ صرف مؤثر ہوتی ہے بلکہ دلوں کو بھی جوڑتی ہے اور معاشرے میں ایک مثبت پیغام پہنچاتی ہے۔
از قلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار
شائع کردہ: 14، نومبر، 2024ء