از قلم: شیبا کوثر، آرہ (بہار) انڈیا
میں کوئی ساگر نہیں میں کوئی دریا نہیں
میرا کام تو بس یونہی بہنا نہیں
میں وہ ہوں جو دریا کے رخ موڑ دوں
میں وہ ہوں جو راہ کے سنگ پھوڑ دوں
جو چاہوں تو تاریخ پر نقش چھوڑ دوں
ریگزا روں سے آبِ حیات نچوڑ دوں
چاہوں تو برفیلی وادی کو آباد کر دوں
خٙلاؤں میں بھی بستی آباد کر دوں
مگر شرط ہے کہ خود کو بدلنا پڑے گا
علم کی وادیوں سے ہم کو گزرنا پڑے گا
سخت جاں ہو کے صبر سے چلنا پڑے گا
خواہشِ نفس کے جال سے نکلنا پڑےگا
نہیں تو بس یونہی گزر جائے گی زندگی
نا بندہ رہیں گے ہم نہ ہوگی بندگی