سیاست و حالات حاضرہ

انصاف کے دوہرے پیمانے

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سوادِ اعظم دہلی

آنکھوں پر پٹی اور ہاتھ میں ترازو!

یہ ہمارے نظام انصاف کی وہ تصویر ہے جو اس ملک میں رہنے والوں کو اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ انصاف کے ترازو میں سب ایک ہیں۔کسی کا چہرہ نہیں دیکھا جائے گا۔سب کے ساتھ غیر جانب دارانہ اور ایک جیسا سلوک ہوگا۔
کاش! نظام انصاف بھی اس تصویر کی طرح منصفانہ ہوتا تو یہ ملک واقعی جنت نشاں ہوتا، مگر اکثر وبیش تر ملک میں انصاف کے الگ الگ پیمانے نظر آتے ہیں۔ حالیہ کچھ معاملات میں بھی انصاف کے ایسے ایسے رنگ دیکھنے کو ملے ہیں جنہیں دیکھ کر دستور وقانون میں بھروسہ رکھنے والوں کو سخت مایوسی ہوتی ہے۔گذشتہ کچھ واقعات کی روشنی میں انصاف دوہرا کردار دیکھیں:

سین نمبر 1
16 ستمبر 2021 کو ضلع کَچھ (گجرات) کے مُندرا پورٹ پر دو مشکوک کنٹینر پکڑے گئے۔تلاشی کے دوران ان میں تقریباً تین ہزار کلو ہیروئن برآمد ہوئی جس کی قیمت تقریباً بیس ہزار کروڑ بتائی جارہی ہے۔ بندرگاہوں پر غیر قانونی اشیا کی اسمگلنگ حیرت کی بات نہیں ہے، لیکن اس معاملے نے لوگوں کا دھیان اس لیے کھینچا کہ یہ پورٹ وزیر اعظم مودی کے انتہائی قریبی اور مشہور کاروباری گوتم اڈانی کی ملکیت میں ہے۔ اس پورٹ پر اتنی بڑی مقدار میں ڈرگس کا ملنا انتہائی غیر معمولی بات تھی۔ اگر قانونی ایجنسیاں اس معاملے کی صحیح سے تحقیق کرتیں تو کئی بڑے چہرے بے نقاب ہوسکتے تھے، اتنا بڑا معاملہ اور اتنی بڑی خبر ایسے دبا دی گئی جیسے گلی کوچوں میں ہونے والی بچوں کی نوک جھونک کی خبر دبا دی جاتی ہے۔

سین نمبر 2
21 اکتوبر کو راجستھان کے ضلع جھنجنو میں کشمیر کے سابق اور میگھالیہ کے موجودہ گورنر ستپال ملِک نے ایک سنسنی خیز دعویٰ کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ کشمیر کے گورنر تھے تو ان کے پاس دو ایسی فائلیں آئیں جو اُنہیں مشکوک اور غیر قانونی محسوس ہوئیں۔ان کا شک اس وقت یقین میں بدل گیا جب ان کے سیکرٹری نے اُنہیں بتایا کہ اگر وہ ان دونوں فائلوں کو منظوری دے دیں تو اس کے عوض انہیں تین سو کروڑ روپے ملیں گے۔ ملک صاحب کے بقول انہوں نے تین سو کروڑ روپے کی رشوت کا لالچ نہیں کیا اور وہ آفر ٹھکراتے ہوئے ان فائلوں کو واپس لوٹا دیا۔دل چسپ بات یہ ہے ان میں سے ایک فائل آر ایس ایس سے وابستہ ایسے لیڈر کی تھی جو کشمیر کی مخلوط حکومت میں بی جے پی کوٹے کا وزیر تھا اور وزیر اعظم کا قریبی مانا جاتا تھا، جب کہ دوسری فائل ملک کے مشہور کاروباری انِل امبانی کی تھی، جن کی وزیر اعظم سے قربت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔مزے کی بات یہ ہے ستپال ملک خود بی جے پی لیڈر ہیں اس لیے اپنی ہی پارٹی کے لیڈر اور اپنے ہی وزیر اعظم کے منظور نظر پر کرپشن کے الزام کو ہلکا نہیں سمجھا جاسکتا۔ اپنی ہی حکومت اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف اتنا بڑا بیان دینا کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ جسے اپوزیشن کا الزام سمجھ کر ہوا میں اڑا دیا جائے مگر انصاف کے کانوں تک اتنی بڑی خبر ابھی تک شاید نہیں پہنچی۔
ذرا تصور کریں!
اگر اسی خبر کا تعلق کسی اور سے ہوتا تو کیا اب تک قانونی ایجنسیاں اسی طرح انجان رہتیں۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر خود سے ایکشن لینے والا سپریم کورٹ آخر اتنے بڑے معاملے پر کیوں خاموش ہے؟

سین نمبر 3
2 اکتوبر 2021 کو ممبئی سے ایک کروز جہاز (cruise ship) گوا جارہا تھا۔جہاز کے مسافر آرام وسکون کے ساتھ سمندری لہروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سفر طے کر رہے تھے، اسی درمیان نارکوٹکس کنٹرول بیورو (NCB) نے اس جہاز پر چھاپا مارا۔ اسی جہاز پر فلم ایکٹر شاہ رخ خان کا بیٹا آریان خان بھی سفر کر رہا تھا۔ اس چھاپے میں این سی بی نے قریب نو دس لوگوں کو گرفتار کیا، ان کے ساتھ ساتھ شاہ رخ خان کے بیٹے آریان کو بھی گرفتار کرلیا۔حالانکہ گرفتاری کے وقت نہ تو آریان خان کے پاس سے کوئی ڈرگس برآمد ہوا، نہ ہی گرفتاری کے وقت وہ کسی نشے میں تھا مگر محض شک کی بنیاد پر اسے گرفتار بھی کیا گیا اور اس کی گرفتاری کو ہائی لائٹ بھی کیا گیا۔اس کے بعد میڈیا نے اس خبر کو بریکنگ نیوز بنا کر بحث ومباحثہ کا موضوع بنا دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے آریان خان کی گرفتاری، اس کی گذشتہ زندگی اور اس کے باپ شاہ رخ خان کو نشانہ بنا کر ایسا ماحول بنایا گیا مانو ملک میں اس سے بڑا موضوع اور مدعا کوئی ہے ہی نہیں!
اس کے بعد سے ہی این سی بی افسران آریان خان کے واٹس ایپ چیٹ، اس کے پچھلے معاملات اور اس کے دوستوں سے لگاتار پوچھ تاچھ کر رہے ہیں۔این سی بی افسران ایسے اشارے دے رہے ہیں کہ آریان کا تعلق کسی انٹرنیشنل اسمگلنگ گروہ سے ہے۔اس درمیان میڈیا بغیر کسی حوالے کے من گھڑت اور فرضی خبریں چلا رہا ہے، این سی بی کے افسر اس طرح میڈیا چینلوں پر انٹرویو دے رہے ہیں جیسے انہوں نے کوئی بڑا معرکہ سر کر لیا ہو۔یاد رہے یہ وہی این سی بی ہے جو بیس ہزار کروڑ روپے کی ڈرگس پر منہ میں دہی جمائے بیٹھی ہے اور بغیر ڈرگس ملے آریان خان کو نشانے پر لیے ہوئے ہے۔

سین نمبر 4
اکتوبر کے دوسرے عشرے ہی میں یوپی کے پرتاپ گڑھ ضلع میں توفیق نامی نوجوان کو پولیس نے ایک کیس کے سلسلے میں حراست میں لیا۔اس دوران پولیس کسٹدی میں ہی اس کی موت ہوگئی۔اہل خانہ کے مطابق توفیق کی موت پولیس کی گولیوں سے ہوئی۔ توفیق ایک غریب خاندان کا چشم وچراغ تھا، کچھ وقت پہلے ہی اس کی شادی ہوئی تھی، ایک بیٹا ہے جو اب یتیم ہوچکا ہے۔توفیق کی نو بیاہتا بیوی، بیوہ بن چکی ہے مگر پورے صوبے میں اس بے گناہ کی موت پر مرگھٹ سا سناٹا ہے۔میڈیا، قانونی ادارے سب ایسے خاموش ہیں جیسا کچھ ہوا ہی نہیں!

یہ کیسا انصاف؟

یہ معاملات گذشتہ ایک ماہ کے درمیان واقع ہوئے ہیں۔ ان میں سے دو کا تعلق حکومت اور اس کے قریبی لوگوں سے جڑے ہیں تو دو تعلق ان لوگوں سے ہے جنہیں مسلمان کہا/مانا جاتا ہے۔اب ان معاملات کا ایک دوسرے سے موازنہ کیجیے اور انصاف کا کھیل سمجھئے:
🔸اڈانی کی مُندرا پورٹ پر جو ڈرگس پکڑی گئی وہ تین ہزار کلو اور تقریباً بیس ہزار کروڑ کی ہے۔ یہ ڈرگس افغنستان سے آرہی تھی، یعنی سیدھے طور پر اس کیس میں انٹرنیشنل اسمگلر جڑے ہیں۔ نشے کی اتنی بڑی کھیپ ملنے کے باوجود این سی بی کا اس کیس میں ٹھنڈا پڑ جانا، میڈیا کا اتنا ہائی پروفائل معاملے پر گونگا بن جانا بغیر کسی دباؤ کے ممکن ہے؟
آخر وہ کون لوگ اور کون سی طاقت ہے جس کے خوف یا اشارے پر اتنی بڑی ڈرگس ملنے کے بعد بھی این سی بی اور میڈیا کا منہ اور تحقیق بند ہے۔
اس کے مقابلے میں آریان خان کا کیس دیکھیں کہ آریان کے پاس سے ڈرگس برآمد ہوا، نہ ہی وہ نشے میں تھا، مگر این سی بی افسران اسے انٹرنیشنل ڈرگ پیڈلر ثابت کرنے کی جی توڑ کوشش کر رہے ہیں۔اڈانی پر خاموشی اور آریان پر ضرورت سے زیادہ تیزی این سی بی کی غیر جانب داری پر سوالیہ نشان کھڑے کرتی ہے۔
این سی بی افسران ڈرگس کیسوں میں کس ذہنیت کے ساتھ کام کرتے ہیں اس کا اندازہ فلم انڈسٹری کے ہی دوسرے واقعے سے لگائیں۔چند ماہ پیش تر این سی بی نے ٹی وی کامیڈین بھارتی سنگھ اور اس کے شوہر ہرش لِمباچیا کو گانجے کے ساتھ رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا۔ دونوں کو این ڈی پی ایس کورٹ میں پیش کیا گیا جہاں حیرت انگیز طور پر سرکاری وکیل چھٹی پر تھا۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ دونوں کو حراست میں رکھا جاتا اور اگلے دن دوبارہ کورٹ میں پیش کیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا، جرم پر جرح ہو نہیں سکتی تھی اس لیے وکیل صفائی کی طرف سے ضمانت کی اپیل کی گئی۔جج صاحب بھی بڑے معاملہ فہم تھے انہوں نے ایک ہی دن میں محض پندرہ ہزار روپے کے مچلکے پر دونوں کو ضمانت دے دی جب کہ شاہ رخ کے بیٹے کو بیس دن گزر جانے کے بعد بھی ضمانت نہیں دی گئی ہے۔اتنے دن گزر جانے اور این سی بی افسران کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی ثبوت کے نام پر ایک پتّا تک نہیں ملا مگر جج صاحبان آریان کو کسی طرح کی رعایت دینے تیار نہیں ہیں۔کیا آریان "خان” ہونے کی سزا بھگت رہا ہے؟
اس درمیان سرکاری وکیل اور جج صاحبان نہایت مستعدی کے ساتھ احکام کی بجا آوری میں مشغول ہیں۔

🔹گورنر ستپال ملک نے کھلے عام امبانی گروپ اور اپنی ہی پارٹی کے ایک لیڈر پر غیر قانونی امور میں ملوث ہونے، کرپشن اور رشوت دینے کا الزام لگایا۔ ایک ذمہ دار شخص نے آن کیمرہ اتنا بڑا بیان دیا مگر ای ڈی(E. D) انکم ٹیکس اور دیگر قانونی ادارے نہ جانے کہاں گم ہوگیے ہیں۔نظام انصاف مکمل خاموش ہے مگر یہی انصاف اعظم خان کی تعمیر کردہ جوہر یونیورسٹی کی زمین چھیننے اور تعلیمی درس گاہوں کو توڑنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ ایک طرف تین سو کروڑ کی رشوت پر مکمل خاموشی ہے تو دوسری طرف اعظم جیسے قدآور لیڈر پر بکری چوری کے الزام میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔کہاں تین سو کروڑ اور کہاں معمولی سی بکری! مگر انصاف بکری کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ ایکٹو اور تین سو کروڑ کے معاملے پر مون وِرَت سادھے ہوئے ہے۔تین سو کروڑ رشوت کا سرا امبانی اور آر ایس ایس کی طرف جاتا ہے جب کہ بکری کی رسّی "خان” کے گلے میں باندھ دی گئی یے۔ اس لیے قانون کو بکری کی فکر زیادہ ہے اور تین سو کروڑ کی بالکل فکر نہیں۔

🔸 پولیس کسٹڈی میں توفیق نامی نوجوان کی موت پولیس زیادتی کی پہلی کہانی نہیں ہے۔گذشتہ کچھ ماہ میں مسلسل پولیس کے ہاتھوں کئی افراد نے اپنی جان گنوائی ہے۔گذشتہ مہینے گورکھ پور میں منیش گپتا نامی شخص کو پولیس والوں نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھا۔وہ تو مرنے والے کی خوش قسمتی کہیے کہ وہ ہندو سماج کا فرد نکلا، جس کی بنا پر تمام سیاسی پارٹیوں اور میڈیا والوں نے پولیس کے خلاف جم کر آواز اٹھائی جس کی بدولت خاطی پولیس افسران کو معطل کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا۔اس کے علاوہ مرنے والی کی بیوی کو سرکاری نوکری اور دس لاکھ کی امدادی رقم بھی دی گئی۔حکومتی امداد سے پہلے ہی سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو بھی متوفی کے اہل خانہ کو بیس لاکھ روپے کی امداد دے چکے تھے۔ توفیق کی موت بھی پولیس کسٹدی میں ہوئی مگر اس کے اہل خانہ کے آنسو پوچھنے کے لیے کوئی سیاسی لیڈر پہنچا نہ حکومت کا کوئی کارندہ۔نہ ہی ان خاطی پولیس والوں کے خلاف کسی طرح کی کوئی کاروائی ہوئی اور ہونے کی امید بھی نہیں ہے، کیوں کہ آج کل انصاف نام اور مذہب دیکھ کر کیا جارہا ہے۔اس لیے توفیق کی بیوہ کی آہیں بھی شاید انصاف کے کانوں تک پہنچ نہیں پائیں گی، پہنچ بھی گئیں تو جانچ اور حقائق کے نام پر اہل خانہ پر نئی مصیبتوں کا دروازہ کھل سکتا ہے۔کیا کریں نظام انصاف ہے ہی اتنا نازک مزاج کہ اگر اسے ذرا سی ٹھیس پہنچی تو فریادی کی الٹی شامت آسکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے