غزل

غزل: کوئی یوسف ہی نہیں ہے بھرے بازار میں اب

خوشبو پروین قریشی
پی ایچ ڈی،اردو یونی ورسٹی آف دہلی

پاؤں رکھنے کا ارادہ ہے کیا انگار میں اب
وہ جلن خور سقم ڈھونڈے گا اشعار میں اب

حوصلے پست نظر آئے معالج کے مجھے
کیسے امید نظر آئے گی بیمار میں اب

وہ انا دار سا لہجہ بھی نہیں ہے باقی
وہ کڑک پن بھی نہیں آپ کی دستار میں اب

جن کو جانا ہے چلےجاءیں خوشامد کرنے
میں گئی تھی نہ کبھی جاؤں گی دربار میں اب

حسن آوارگی شہر کا قائل نہ رہا
کوئی یوسف ہی نہیں ہے بھرے بازار میں اب

صبح کی چائے کا اک ساتھ ہی کافی ہے مجھے
کب سکوں بخش خبر ملتی ہے اخبار میں اب

اب تو خوشبو جی کنارے ہی ڈبو دیتے ہیں.
کویٔ کشتی بھی نہیں ڈوبتی مجھدھار میں اب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے