غزل

غزل: جس کے وعدہ کا اعتبار نہیں

خیال آرائی: ناطق مصباحی

جس کے وعدہ کا اعتبار نہیں
اس کے اندر کوئی وقار نہیں

ہوٹلوں میں وہ ٹھاٹ کرتا رہا
وہ کسی کابھی وفادار نہیں

کامیابی کا ذکر خود کرتا
پت جھری ہے کہیں بہار نہیں

اس کی نادانی سب کی نظروں میں
اہل دانش میں انتشار نہیں

جھوٹے وعدوں سے بن گیا قاید
اچھےلوگوں میں وہ شمار نہیں

جب محافظ کی ہوئی خونریزی
سخت دل ہے وہ اشکبار نہیں

دیکھا ناطق جو ایسے بدخو کو
کہہ دیا کچھ بھی ہونہار نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے