اصلاح معاشرہ مضامین و مقالات

عائشہ کی موت کا ذمہ دار کون؟؟

تحرير: زین العابدین ندوی
سنت کبیر نگر

زہر کھانے والا اس کے برے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا خواہ کچھ دیر لگے، یہی حال ہمارے جہالت زدہ معاشرہ کا ہے، جس کا ہر شعبہ زہر آلود اور ہر گوشہ گندگیوں میں لت پت ہے، انسان نما شیطانوں کا ہر طرف بسیرا ہے،طرفہ تماشہ یہ کہ خود کو مسلمان کہنے والے بلکہ مسلمانوں کی رہنمائی کا دم بھرنے والے اس میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

احمدآباد سے تعلق رکھنے والی مرحوم بہن عائشہ کی موت موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے، ہر طرف تعزیت وسوگواری کی کیفیت ہے، آنکھیں نم اور دل غموں سے نڈھال ہیں، اس کی دکھ بھری آواز اور ٹوٹے دل کی صدا نے وجود انسانی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، قلم ساتھ دینے سے عاجز اور زبان بیان غم سے قاصر دکھائی دیتی ہے، سوال یہ ہے کہ اس موت کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ المناک قدم اٹھانے پر اسے کس بات نے مجبور کیا؟

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ نہ جانے ایسے کتنے واقعات ہر روز پیش آتے ہیں،اور کتنی ہی عائشائیں موت کا کڑوا گھونٹ پی جاتی ہیں لیکن وہ اخبارات کی سرخیوں میں آنے سے رہ جاتی ہیں،اور ہم کف افسوس مل کر ان سب باتوں کو نسیا منسیا کرتے ہوئے عیش کی سانسیں بھرتے ہیں،اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ واقعات کیوں پیش آتے ہیں ہم انہیں جرائم کا ارتکاب خوب دھوم دھام سے کرتے ہیں اور اسے اپنے لئے سبب فخر سمجھتے ہیں۔

عائشہ بہن قوم وملت کی امانت تھی جس نے ہمارے برے برتاؤ اور ناجائز وحرام مطالبات سے تنگ آکر اپنی زندگی کو خیرباد کہہ دیا اور جاتے جاتے ہمیں یہ پیغام دے گئی کہ اس صف میں مجھ جیسی نہ جانے کتنی فاطمائیں اور خدیجائیں ہیں جو جہیز کی لعنت کے سبب صبح وشام سسکیاں بھرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو خیرباد کہہ رہی ہیں، کہاں ہیں نسبت اسلام پر فخر کرنے والے؟ دعویٰ مسلمانیت کا دم بھرنے والے؟ اپنے ناموں کے ساتھ احمد ومحمد کا لاحقہ لگانے والے؟

کیا یہ ایک سچائی نہیں کہ ہم مسلمانوں کا اکثر کا گھرانہ بہو بیٹیوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے آنے والی بچیوں کا استحصال کرتا ہے؟ بہووں کے ساتھ نوکرانیوں سے بدتر سلوک کرتا ہے؟ اسے ہر دم اور ہر گھڑی ذہنی الجھنوں میں مبتلا رکھ کر اذیت پہونچاتا ہے؟یہ گھر گھر کی کہانی ہے، جس کے نتیجہ میں دل دہلا دینے والے یہ واقعات رونما ہوتے ہیں اور ہم جو کہ خود اس جرم میں سر سے پاوں تک ملوث ہیں افسوس کرتے دکھائی دیتے ہیں، بیان دیتے پھرتے ہیں، جبکہ سچائی یہ ہے کہ ہم ہی انہیں اموات کے ذمہ دار ہیں، اور ہمارے منافقانہ رویے ہی ان واقعات کی اصل وجہ ہیں۔

آخر الذکر بات جو بطور حل رقم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ کہ اگر ہم جہیز و مطالبات کی لعنتوں سے چھٹکارا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کے حادثات پر روک تھام لگے، تو اسلام کے قائم کردہ نظام وراثت کو زندہ کرنا پڑے گا، بہنوں کو ان کا حصہ دینا ہوگا، اس نظام کو زندہ کئے بغیر اس لعنت پر روک تھام کی کوشش نقش بر آب ثابت ہوگی، جس کا کوئی بھی فائدہ نہیں۔۔۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے