خیال آرائی: خوشبو پروین قریشی، حیدرآباد
زبانِ حال میں ماضی کا قصہ ہو گئی ہوں نا
میں اس کے ساتھ رہ کر اور تنہا ہو گئی ہوں نا
مسلسل خشک دریا سے لگی چلتی رہی شاید
تو اب لگتا ہے میں مانوسِ صحرا ہو گئی ہوں نا
گھنے بادل تو ہیں لیکن نہیں آثار بارش کے
عجب سا ہجر موسم ہے میں تشنہ ہو گئی ہوں نا
دلاتی ہے یقیں کیوں میرے ہونے کا بھری دنیا
گماں سے پوچھتی ہوں، کوئی دھوکا ہو گئی ہوں نا
سمندر تک پہنچنا ہے مگر اف دھوپ کی شدت
میں اپنی ذات میں خود خشک دریا ہو گئی ہوں نا
سبب شاید کسی کا یاد آجانا بنا خوشبو
میں خود میں مر چکی تھی پھر سے زندہ ہو گئی ہوں نا