تعلیم گوشہ خواتین

میرے الفاظ ۔۔۔۔

کام وہ لے لیجئیے ﷺ کو جو راضی کرے
ٹھیک ہو نامِ رضا تم پہ کروڑوں درود

الحمدللہ میرے والد صاحب حافظ قرآن ہیں۔۔۔

جب ہم بہت چھوٹے چھوٹے تھے تبھی سے ہمیں اپنے ساتھ درسگاہ میں لے جایا کرتے تھے اور یہیں سے میری ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔۔۔

والد صاحب نے محنت کرکے کسی طرح سے 6 سال کی عمر میں ہی قرآن مجید ناظرہ ختم کروایا۔۔۔ سب لوگ بہت خوش تھے۔۔۔ فاتحہ کیا گیا اور میرے ہی ہاتھوں سے گلاب جامن بنٹوایا گیا۔۔

6 برس کی عمر ہوچکی تھی لیکن آس پاس کوئی اسکول نہیں تھی اسلئے کہیں ایڈمیشن نہیں ہوا۔۔۔ بہرِ کیف کبھی انکے پاس کبھی اُنکے جاکر انگریزی(abcd) سیکھ لی تھی۔۔۔

پھر الحمدللہ اُسی سال 2007 میں جامعہ امام احمد رضا (مدرسہ) میں ہی انگلش میڈیم اسکول کی شروعات ہوئی۔۔۔ 1st کلاس میں ایڈمیشن ہوا۔۔۔ اب روزآنہ صبح اسکول جانے اور دوپہر میں ابّو کے پاس اردو/قرآن مجید پڑھنے کا معمول بن گیا۔۔۔

ابھی میں دوسری جماعت ہی میں تھی کہ ابّو نے خوب اچھی طرح سے اُردو پڑھنا لکھنا سیکھا دیا۔۔۔

اتنا ہو جانے کے بعد میری چھوٹی خالہ ( جو ماشااللہ بہت ہی بہترین عالمہ ہیں، اُس وقت جامعہ ہی میں بچیوں کو تعلیم دے رہی تھیں) نے عالمیت کی کچھ بنیادی کتابیں شروع کروائیں۔۔۔ مجھے بالکل اچھی طرح سے ياد ہے کہ اعدادیہ کی چند کتابیں میرے ابّو نے بھی مجھے پڑھائی تھی۔۔۔
ایک آدھ سال بعد امّی کی بھی فراغت ہوگئی۔۔۔ اب امی اور خالہ دونوں نے ملکر میرے پیچھے خوب محنت کی اور کروائی بھی یہاں تک کہ ثانیہ تک کی ساری اہم کتابیں ختم کروا دی۔۔۔

اسکول میں اس وقت میں 6th کلاس میں تھی۔۔۔ اتوار یا اسکول کی دوسری چھٹیوں میں مدرسے کی بچیوں کے ساتھ میں بھی درسگاہ میں حاضر رہتی۔۔۔ اس سے تجربہ اور ایک الگ طرح کا اعتماد ہوجاتا کہ چلو مجھے بھی کچھ آتا ہے۔۔۔

دھیرے دھیرے میرا ذہن اسکول سے ہٹنے لگا، اب وہ پہلے والا مزہ نہیں آرہا تھا پڑھائی میں۔۔۔ جبکہ عالمیت میں دلچسپی شغف کافی حد تک بڑھ گئی۔۔۔ میں نے اپنے من میں ہی یہ بات ٹھان لیا تھا کہ اب اسکول چھوڑکر مدرسہ ہی پڑھونگی۔۔۔

لیکن اس بات پر کوئی راضی نہیں تھا۔۔۔ ٹیچرز، رشتہ دار، خود گھر والے ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کم از کم دسویں مکمل کر لینا چاہیے۔۔۔ لیکن نہیں!!
اب کیا تھا۔۔۔ ثالثہ میں ایڈمیشن ہوگیا۔۔۔ اسکول سے فرصت مل چکی تھی۔۔۔ گویا ذہن سے ایک بڑا بوجھ ہٹ گیا۔۔۔ لیکن محنت میں کمی نہیں آنے دی۔۔۔ جو محنت دو جگہ بنٹی ہوئی تھی ایک ہی پر لگا ڈالی۔۔۔
ثالثہ، رابعہ، خامسہ یہ 3 سال کب گزر گئے بالکل پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ عالمیت کی ردا پوشی ہوئی۔۔۔ اس وقت میری عمر 15 سال ہی تھی۔۔۔ خاندان کے لوگ، رشتہ دار، متعلقین سب آئے ہوئے تھے۔۔۔ سبھوں نے گل پوشی کی۔۔۔ ڈھیروں مبارکباد اور دعائیں دی۔۔۔ اور 6-4 دنوں تک سب رخصت ہوگئے۔۔۔

اتنا تو ہوگیا۔۔۔ لیکن ابھی فضیلت باقی تھی۔۔۔ اور دوسری طرف میرے اسکول کے ہم جماعت(batchmates) دسویں میں پہنچ چکے تھے۔۔۔ میں تو اسی کشمکش میں تھی کہ اپنے بیچ میٹس کے ساتھ دسویں کرلوں یا پہلے فضیلت مکمل کرلوں۔۔۔ لیکن میرا دل فضیلت کی جانب زیادہ مائل تھا۔۔۔ تو ابّو نے کہا دونوں ایک ساتھ کرلو۔۔۔ اپنی جانب سے محنت اور لگن میں کوئی كمی نہ رہنے دو ۔۔۔ باقی اللہ کے بھروسے چھوڑدو۔۔۔ ان شاءاللہ سب بہتر ہی ہوگا۔۔۔ ابّو کی اس بات پر میں راضی تو ہوگئی لیکن شروع شروع میں مجھے دونوں تعلیم کو ساتھ لیکر چلنا وہ بھی دسویں اور فضیلت (آخری سال) بالکل نا ممکن لگ رہا تھا۔۔۔

میں یہی سوچ رہی تھی کہ مدرسے میں کسی طرح پاس ہو ہی جاؤنگی اوّل یا ممتاز آنا کوئی ضروری نہیں ہے۔۔۔ مگر اسکول (دسویں) کا کیا کرونگی۔۔۔ 6th کے بعد سیدھا دسویں میں چھلانگ مارنا میرے لیے آسان نہیں تھا۔۔۔ جب بھی کتاب اٹھاتی، پڑھنے سمجھنے کی کوشش کرتی کچھ بھی سمجھ میں نہ آتا۔۔۔ کتاب بند کرکے رکھ دیتی۔۔۔ پھر ابّو نے بہت سمجھایا۔۔۔ کہا بیٹا جو نہ سمجھ میں آئے اسے دو بار پڑھو تین بار پڑھو۔۔۔ تب بھی نہ سمجھے تو اُس سے متعلق بنیادی چیزوں کو پہلے سمجھ لو اور پھر دوبارہ اُسی چیز کو پڑھو، سمجھ میں آنے لگے گا۔۔۔ ابّو کی باتوں پر میں نے عمل کیا۔۔۔ ابتداءً چیزوں کو سمجھنے میں تو کافی وقت لگ جاتا۔۔۔ لیکن خود سے سمجھنے میں جو خوشی اور اعتماد پیدا ہوتا وہ کئی گنا زیادہ ہوتا۔۔۔ واقعی ابّو کی باتوں میں دم تھا۔۔۔ ایک دو مہینے تھوڑی دقّتوں کا سامنا کرنا پڑا مگر اسکے بعد سے سارے مضامین (subjects) بالکل اچھی طرح سے سمجھ میں آنے لگے یہاں تک کہ کسی کو ریاضی (maths) کے problems /calculations وغیرہ میں دقّت ہوتی تو وہ مُجھ سے سمجھتے تھے۔۔۔ بالآخر بعونهٖ تعالیٰ دسویں بھی ہوگئی اور فضیلت کی ردا پوشی بھی ہوگئ۔۔۔

اب پختہ ارادہ بن چکا تھا کہ دین کی خادمہ بن کر جامعہ کی خدمت کرونگی درس و تدریس کے ذریعے۔۔۔

یہی وہ سر زمین ہے جسکی عمارتوں کے سائے میں چار دیواری میں ره کر والدین کے خواب کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا موقعہ ملا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اسے صدا سر سبز و شاداب رکھے۔۔۔ (آمین بجاہ النبی ﷺ)

2-3 ہی مہینے خدمتِ دین کر سکی کہ قریب ہی ایک کالج میں گیارہویں (سائنس) میں ایڈمیشن دلا دیا گیا۔۔۔

اسکی وجہ یہ تھی کہ ابّو کا کہنا تھا اگر آپ صرف دینی تعلیم حاصل کرتے ہو تو شاید آپکی باتوں سے دنیاوی لوگ زیادہ متاثر نہیں ہونگے۔۔۔ اسی جگہ اگر دین و دنیا دونوں کی معلومات رہیگی تو لوگوں کو ہر طرح سے سمجھا سکوگے اور وہ باتیں اور موثر ہونگی۔۔۔

اور ڈاکٹر بنانا اسلئے چاہتے تھے کہ اس میں خدمتِ خلق ہے۔۔۔ مگر گیارہویں میں مجھے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جس کالج میں میں جاتی تھی وہ مراٹھی کالج تھا۔۔۔ اگرچہ کتابیں انگلش میں ہی تھیں لیکن آپس کی بات چیت، لیکچرز سب مراٹھی میں ہوتے تھے۔۔۔ اور مجھے مراٹھی بالکل نہیں آتی تھی۔۔۔ ایک سال تو مراٹھی ہی سیکھنے میں چلا گیا۔۔۔ کتابیں تو گھر پر ہی خود سے پڑھ لیا کرتی تھی۔۔۔ الحمدللّٰہ اب self study کی عادت ہوچکی تھی تو کوئی دقّت نہیں ہوئی۔۔۔ 11th، 12th ایک ایک دن شمار کر کرکے کسی طرح سے گزر گیا۔۔۔ 12th ہونے کے 2 ہی مہینے بعد neet ( جس میں کافی اعلیٰ رینک حاصل کرنے کے بعد ہی mbbs کیلئے گورنمنٹ کالج ملتا ہے) کا امتحان ہوا۔۔۔ لیکن نمبر اتنے اچھے نہیں آئے کہ گیورنمنٹ کالج مل جائے۔۔۔ پرائیویٹ میں ایڈمیشن مل جاتا مگر اسکی فیس بھرنا ہماری استطاعت سے باہر تھا۔۔۔ در اصل یہ میری ہی غلطی تھی۔۔۔ شاید محنت میں کوئی کمی رہ گئی ہوگی۔۔۔
خیر میں اپنی کمی کی معترف ہوئی اور خود کو پھرسے ایک بار اور موقعہ دیا۔۔۔ اور اِس بار جی جان لگاکر تیاری کی۔۔۔ سیکھانے کیلئے تو گھر کے سارے کام امی نے سکھا دئیے تھے مگر گھر میں مجھ سے کوئی بھی کسی طرح کا کام نہیں لیتا۔۔۔

بلکہ جگہ پہ بٹھا کر ہی کھانا پانی دے دیتے۔۔۔الحمدللہ والدین کی حمایت کا یہ عالم تھا کہ رات 4-3 بجے بھی اگر امی یا ابو کی آنکھ کھلتی اور مجھے پڑھتا دیکھتے تو اُسی وقت چائے اور سردی کے دنوں میں اُبلا انڈا وغیرہ حاضر کر دیتے۔۔۔ میری اس کامیابی کے پیچھے مُجھ سے کہیں زیادہ والدین کی محنت ہے۔۔۔ انکا احسان زندگی بھر بھی چکانے کی کوشش کروں تب بھی نہیں چُکا پاونگی۔۔۔ یا اللہ تا عمر ہمارے سروں پر انکا سایہ رہے ۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ۔

با لآخر گھر والوں اور اساتذہ کی محنتیں اور دعائیں رنگ لائیں۔۔۔ اور اس بار الحمدللّٰہ اچھی رینک سے mbbs کیلئے selection ہوگیا
اب ان شاءاللہ کچھ ہی دنوں میں کالج شروع ہوجائیگا۔۔۔ یہ ساڑھے چار برس میرے لیے شاید سب سے مشکل ایّام میں سے ہونگے۔۔۔ دعا کریں کہ شریعت مطہرہ کی پابندی و پاسداری کے ساتھ کسی طرح یہ دن بھی گزر جائیں۔۔۔۔
رہی بات مستقبل کی تو ابھی تک تو یہی اِرادہ ہے کہ ان شاءاللہ gynaecologist بنونگی۔۔۔ اور تقریباً جتنے لوگوں نے بھی مجھے اِس تعلّق سے مشورہ دیا سب نے اسی برانچ کے بارے میں کہا۔۔۔ جسکی آج بہت زیادہ ضرورت ہے۔۔۔ خاص کر نسوانی امراض کیلئے عورتیں لیڈیز (ladies) ڈاکٹر ہی کو ترجیح دینا چاہتی ہیں اور یہی ہونا بھی چاہیے لیکن مجبوراً اُنھیں مرد ڈاکٹر کے پاس ہی جانا پڑتا ہے۔۔۔ ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اِس برانچ کا انتخاب کی ہوں۔۔۔ اور گھر والے بھی اس سے متّفق ہیں۔۔۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ کامیابی دے اور وہ ساعت سعید جلد آئے کہ میں خدمتِ خلق کروں دعا اور دوا کے زریعے۔۔۔

میں ان سب کا صمیم قلب سے شکر ادا کرتی ہوں جنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میری حمایت کی۔۔ان کے لئیے دعاء ہے مولیٰ کریم اپنے پیاروں کے صدقے میرے والدین اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کو عمر دراز بالخیر عطا فرمائے حج مقبول و مبرور کی سعادت نصیب فرمائے۔۔
اللھم آمین بجاہ طـه و یٰسین ﷺ

آخر میں بس میں اتنا کہنا چاہونگی کہ اللہ تعالیٰ پر یقین اور خود اعتمادی اور سچی لگن ہو تو ہر انسان آگے بڑھ سکتا ہے۔۔۔

اگر ہو جستجو صادق تو ناکامی نہیں ہوتی
جو منزل کا ہو مَتوَالا وہ منزل پا ہی لیتا ہے

گوہر نایاب مل سکتا ہے محنت شرط ہے
مضطرب رہتا ہے ہر موتی ابھرنے کے لئیے۔۔

✍🏻 خان عظمیٰ نوری بنت قاری طیّب صاحب

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے