نتیجۂ فکر: فارح مظفرپوری
قوم مسلم کہاں غائب ہے وہ طاقت تیری
کفر پر طاری جو کر دیتی تھی ہیبت تیری
بے خبر! ہوش میں آ خیر منا لے اپنی
کھلنے والی ہے زمانے پہ حقیقت تیری
قوم مسلم تو ابھی ہوش ٹھکانے کر لے
ہر کوئی پھر سے لگانے لگا قیمت تیری
قیصر و کسری کے ایوان ہلانے والے
کیسے مفقود ہوئی اعلیٰ قیادت تیری
مسند پیری پہ بیٹھے ہوئے اے گدی نشین
کیا سلامت ہے وہی راہ طریقت تیری؟
خواب خرگوش میں کیا عمر بتائے گا؟ بتا!
جب کہ دنیا کو پڑی پھر ہے ضرورت تیری
جس کو سن کر بھلی دنیا تیری گرویدہ تھی
کیا ابھی باقی ہے ویسی ہی خطابت تیری؟
بے سہارا کبھی سمجھوں یہ مجھے زیب نہیں
کام آتی ہے ہر اک گام پہ نسبت تیری
کیوں ہوئی جلدی تجھے سوئے عدم جانے کی
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری
دور جانا نہ کہیں چھوڑ کر اس کو فارح
خوب پاکیزہ ہے ہر اک سے شریعت تیری