ازقلم: ڈاکٹر محمد مجتبٰی احمد، دربھنگہ ،بہار
آج کل ٹی ۔ ٹوئنٹی کرکٹ کی طرح شعر و ادب کے میدان میں بھی چیئر لیڈرس بڑی تعداد میں پیدا ہو رہے ہیں لیکن کرکٹ اور ادب کے چیئر لیڈرس میں فرق ہے۔ کرکٹ میں صرف اچھے shots یا اچھی گیند پر ہی چیئر لیڈرس جو عام طور سے صنف نازک ہوتی ہیں تھرکتی ہیں مگر شعر و ادب میں ہر بْرے شعر ، بھونڈی تحریر اور بکواس کتاب پر چیئر لیڈرس تعریف و توصیف کے ایسے پل باندھتے ہیں کہ تخلیق کار کو اپنی تخلیق میں وہ تمام خوبیاں نظر آنے لگتی ہیں جو اس میں نہیں ہوتیں اور وہ تمام خامیاں نظر نہیں آتیں جو اس میں جابجا ہوتی ہیں ۔ چیئر لیڈرس کی بے تحاشا غلو کاری کی وجہ سے یہ تخلیقات اتنے بلند مقام پر پہنچ جاتی ہیں کہ کسی کو نظر ہی نہیں آتیں ۔
ہمارے فقیرا بھائی بھی شعر و ادب کے میدان کے ایک چیئر لیڈر ہیں۔ یہ ہر روز درجنوں کتابوں پر تبصرے لکھتے ہیں مگر کمال کی بات یہ ہے کہ جن کتابوں پہ تبصرے کرتے ہیں انہیں پڑھنا تو دور کی بات دیکھتے تک نہیں۔ان کے مطابق آج کل کتابیں بغیر پڑھے لکھی جاتی ہیں تو ان پر تبصرے بھی بغیر پڑھے ہی لکھے جانے چاہئیں تاکہ کتاب اور تبصرے کا معیار ایک سا ہو،پرانے وقتوں کے رائٹرس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ کتابیں لکھتے کم تھے پڑھتے زیادہ تھے۔پھر ہر قابل قدر کتاب کو مرحومین کلیم الدین احمد اور شمش الرحمان فاروقی جیسے لوگ بھی پڑھتے تھے اور بعد مطالعہ اس میں موجود سارے کیڑوں کو نکال بھی دیتے تھے ۔ اکثر کتابوں سے اتنے کیڑے نکلتے تھے کہ کیڑوں کے نکلنے کے بعد کتاب میں کچھ بچتا ہی نہیں تھا یعنی کتاب غائب ہو جاتی تھی۔ شعر و ادب کو غیر علمی قلموں اور حملوں کے خلاف زیڈ پلس سیکورٹی دینے والے ان حضرات کی وجہ سے کتابوں کی تعداد بالخصوص نئی کتابوں کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی۔ عہد نو کے چیئر لیڈرس نے کتابوں کی کمی کو دور کرنے کے واسطے کتابوں سے کیڑے نکا لنے کی بجائے کیڑوں کو ہی کتاب کا درجہ دینا شروع کر دیا ہے اور کتابوں کی درجہ بندی یا درجات کی بلندی کے لیے پرانے وقتوں میں ریل گاڑی میں اپنائی گئی ترکیب کو اپنا رہے ہیں ۔ عہد رفتہ میں ریل گاڑی میں تھڑد کلاس بھی ہوتا تھا جسے گاندھی سیٹ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ گاندھی جی ہمیشہ تیسرے درجہ میں سفر کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ چونکہ چوتھا درجہ نہیں ہے اس لئے تیسرے درجہ میں سفر کرتا ہوں۔مگر مسافروں کا اسٹینڈرڈ بڑھانے کے واسطے گذ شتہ صدی میں آنجہانی اندرا گاندھی کے دور اقتدار میں ہمارے ملک میں ریل گاڑیوں میں سکینڈ کلاس کی سیٹ پر جو گدّ ے تھے اسے نوچ کر تھڑد کلاس کی سیٹ کے جیسا بنایا گیا اور پھر تھڑڈ کلاس کا نام سکینڈ کلاس رکھ دیا گیا ۔با لکل اسی طرح آج کل قائدین شاباشی (چیئر لیڈرس) تھڑد کلاس کے ادبا و شعرا و صحافیوں کو اپنی غلو کاری کے ذریعے سیکنڈ کلاس والا قرار دے رہے ہیں۔یہ چیئر لیڈرس کا کمال ہے کہ جو نقطے خود سے اْٹھنے کے قابل نہیں ہوتے انہیں یہ اپنے کاندھوں پہ اٹھا ئے پھرتے ہیں ۔
آج کی سپر فاسٹ زندگی میں لوگ ہرکام تیزی سے کرتے ہیں ۔ہمارے قلم کار صبح و شام قلمی دھماکہ کر زود نویسی کا رکاڑڈ بنا رہے ہیں اور غلو کار یعنی قائدین شاباشی (چیئر لیڈرس) ان کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں ۔ چیئر لیڈرس کی حوصلہ افزائی سے ہی ادب کا پڑوڈکشن ریٹ بہت بلند ہے۔ دس بیس کتابیں تو اردو کا ٹائپسٹ اور جلد ساز لکھ رہا ہے ۔ہر نامہ نگار قلم کار بن چکا ہے ۔آج کے ادیب و شاعر محقق، مبصر اور ناقد ہونے کے علاوہ اتنی کتابوں کے مصنف ہوتے ہیں کہ دوسروں کی لکھی کتابوں کو چھوڑیئے انہیں خود اپنی لکھی کتابوں کے نام تک یاد نہیں ہوتے ۔اب ایسے ادیب و شاعر کم ہی پیدا ہوتے ہیں جو سو پچاس کتاب نہ لکھیں یا پچیس پچاس ہزار شعر نہ کہیں ۔کچھ شعرا تو غالب سے بھی زیادہ کمال کر رہے ہیں ۔غالب نے بے درو دیوار کا گھر بنانے کی بات کی تھی مگر یہ لوگ بغیر ردیف و قافیہ کے شعر بھی کہہ رہے ہیں ۔ڈاکٹر یونس بٹ صاحب نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہیں لکھا ہے کے ان دنوں معمولی ادبا و شعرا نے پیدا ہونا بند کر دیا ہے ۔میرا خیال ہے کہ اگر غلطی سے کوئی معمولی ادیب و شاعر پیدا ہو بھی جاتا ہے تو ہمارے چیئر لیڈرس اپنے تبصرے سے اسے غیر معمولی بنا دیتے ہیں ۔ادیب و شاعر کو پھولوں کی زبان میں اخباروں میں لانچ کر نے والے ان چیئر لیڈر س کی بدولت ہی شعر و ادب کے میدان میں سپر فاسٹ شاعر و ادیب پیدا ہو رہے ہیں ۔یہ محسن بھوپالی کے اس شعر سے متفق نہیں ۔
خوب ہے، خوب تر ہے، خوب ترین
اس طرح تجزیہ نہیں ہوتے
ان کا کہنا ہے کہ اگر پرانے چیئر لیڈرس کی کسوٹی پر آج کے شعر و ادب کو پرکھا جائے تو اخبار و رسالہ کے صفحات کم ہو جائیں گے اور بہت سے ہم جیسے اخباری چیئر لیڈرس بے روزگار بھی ہو جائیں گے۔
یہ ہمارے چیئر لیڈرس کا ہی کمال ہے کہ موجودہ شعر و ادب ۔ ٹی۔ٹونٹی کرکٹ کی طرح سپر فاسٹ ہو گیا ہے ۔ جس طرح ٹی ۔ٹؤئنٹی کرکٹ میں رنوں کی برسات ہوتی ہے اور وکٹوں کی جھڑی لگتی ہے اسی طرح شعر و ادب کے میدان میں بھی کتابوں کا سیلاب آتا ہیاور غزلوں، نظموں کی گنگا بہتی ہے۔اس حیرت انگیز کارنامے کی وجہ یہ ہے کہ ٹی۔ ٹوئنٹی میں جس طرح آنکھ موند کر بلّا گھمایا جاتا ہے اور باقی کا کام چیئر لیڈرس کے کولہے چمکانے سے مکمل ہو تا ہے اسی طرح شعر و ادب اور کسی حد تک صحافت کے میدان میں بھی آ نکھ موند کر لکھا جاتا ہے اور باقی کا کام چیئر لیڈرس کی غلو کاری سے مکمل ہو تا ہے۔
فقیرا بھائی فروغ اردو ادب کے لیے آ نکھ موند کر لکھنے کی وکالت کرتے ہیں ۔ان کے مطابق آنکھ موند کر لکھنے کے بڑے فائدے ہیں ۔ وقت کی بچت ہ
وتی ہے او
ر دماغ پر بھی زور نہیں پڑتا۔ زیادہ سے زیادہ لکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ شیخ ڈھکّن اور پروفیسر مکھن جیسے سورما بھوپالی پیدا ہوتے ہیں ۔ خامہ بگوش (مرحوم مشفق خواجہ ) نے بھی آنکھ موند کر لکھنے کے فائدے کو تسلیم کیا ہے ۔ جمیل یوسف صاحب کی تحریر کردہ سفر نامے پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ اگر سفر نامہ آنکھ موند کر لکھا جائے تو سفر مزیدار ہو نہ ہو سفر نامہ ضرور مزیدار ہوتا ہے ۔کچھ اسی طرح کی صورتحال آج ہر صنف ادب میں دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ آج کل کتابیں آنکھ موند کر لکھی جاتی ہیں اور ان کی ٹی آر پی بڑھانے کا کام چیئر لیڈرس آنکھ موند کر کرتے ہیں ۔
چیئر لیڈرس تنقید بھی خوب لکھتے ہیں۔ ان کی تنقید میں فنی خامیوں کا ذکر نہیں ہوتا۔ فقیرا بھائی کے مطابق تنقید کے نام پر تحسین ، توصیف و تہنیت کے کلمات ہی لکھے جاتے ہیں جس سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ادیب و شاعر جو ایک ادبی جملہ اور ایک اچھا شعر نہیں کہہ سکتا کتابوں پہ کتابیں اور لا تعداد شعر لکھنے لگتا ہے۔ شعر و ادب کی شیر نما بکڑیوں کو بڑے پیمانے پر دریافت کرنے والے یہ چیئر لیڈرس اخباروں میں زیادہ پائے جاتے ہیں بلکہ یہ وہیں پیدا بھی ہوتے اور پنپتے بھی ہیں ۔ ہر اخبار کے اپنے اپنے چیئر لیڈرس ہیں ۔جن چیئر لیڈرس کا نٹ ورک مضبوط ہوتا ہے وہ کئی اخباروں میں نظر آتے ہیں ۔ ان کا اپنا اپنا گروہ ہوتا ہے ۔ چیئر لیڈرس عام طور سے اپنے گروہ کے لکھنے والوں کی تحریروں سے ہی اخباروں کے صفحات سیاہ کرتے ہیں۔ سیاہی کم ہوتی ہے تو اپنے قلم سے اس کمی کو فوراً دور کرتے ہیں ۔کچھ لوگ مع اہل و عیال چیئر لیڈرس کا کام کرتے ہیں ۔ آج کل کالجوں کے ساتھ ساتھ مدرسوں سے بھی شعر و ادب کے چیئر لیڈرس نکل رہے ہیں۔ پہلے یہاں سے صوفی اور فقیر نکلتے تھے اب صحافی اور مدیر و دبیر نکلتے ہیں۔ فقیرا بھائی کی معیت میں میں پروفیسر مکھن اور شیخ دھکّن جو مشہور چیئر لیڈرس ہیں سے ملتا رہتا ہوں ۔ شیخ ڈھکّن معاشیات، عمرانیات، سیاسیات، نفسیات، ادبیات پر روزانہ آنکھ موند کر لکھتے ہیں حالانکہ ان چیزوں کی تعلیم انہوں نے کہیں سے نہیں لی ہے۔ پرفیسر مکھن صاحب تو ہر مہمل ادیب و شاعر کو موضوع بنانے کے فن میں ماہر ہیں۔فقیرا بھائی کا کہنا ہے شیخ ڈھکّن اور پروفیسر مکھن جیسے چیئر لیڈرس کی تحریر اس پایہ کی ہوتی ہے کے اسے سمجھنا تو مشکل ہوتا ہی ہے پڑھنے میں بھی اس قدر دشواری ہوتی ہے کے بہت سے لوگ کہتے ہیں ان کی تحریر پڑھنے والوں کے گناہ شاید اللہ اپنے کرم سے معاف کر دے ۔ بغیر سر پیر کی بات سے اخباروں کو بھر دینا چیئر لیڈرس کا حیرت انگیز کمال ہے۔
اگر آپ بھی شعر و ادب کی تخلیق میں ٹائیں ٹائیں فش ہیں تو چیئر لیڈر بن جائیں یہ بھی نہ ہو سکے تو کسی چیئر لیڈر سے دوستی کریں پھر کتابوں پہ کتابیں لکھیں، اخبار و رسائل کو سیاہ کریں۔ اگر سیاہی کی کمی ہو گی تو آپ کے چیئر لیڈر اپنی تحریر سے یہ کمی دور کر دیں گے ۔قارئین کی پرواہ نہ کریں۔ آپ کی تحریر ان کے گناہوں کا کفارہ ثابت ہو گی ۔
آپ کے سر میرے پیر ہیں۔
اورینٹل کالج پٹنہ کے صدر شعبہ اردو پروفیسر محسن رضا رضوی نے مرحوم اجتبٰی حسین رضوی کے تعلق سے یہ پر لطف واقعہ سنایا ہے ۔
‘گزشتہ صدی کی نویں دہائی کی ابتدا میں مشہور فلسفی شاعر مرحوم اجتبٰی حسین رضوی اپنے فرزند مرحوم مرتضیٰ اظہر رضوی کے ہمراہ خان چوک دربھنگہ کے جنوب میں رہائش پزیر تھے ۔ مظفر پور سے تعلق رکھنے والے اے۔ این کالج، پٹنہ کے سبکدوش پروفیسر منظر اعجاز صاحب جو مرتضیٰ اظہر رضوی مرحوم کی نگرانی میں ان دنوں تحقیقی مقالہ لکھ رہے تھے اکثر ان سے ملنے دربھنگہ آیا کرتے تھے ۔حسب معمول ایک روز جب منظر اعجاز صاحب مرتضیٰ رضوی مرحوم سے ملنے پہنچے تو اجتبٰی رضوی مرحوم کو حسب عادت آرام کرسی پر دراز آنکھیں بند کیے گہری سوچ میں غرق پایا۔ منظر صاحب نے ان سے بہت ادب کے ساتھ کئی بار پوچھا ‘سر ہیں؟ سر ہیں؟’ مگر اجتبٰی مرحوم نے کوئی جواب نہ دیا ۔انہوں نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر پوچھا ‘سر ہیں؟ سر ہیں؟ ‘
اجتبٰی مرحوم خاموش رہے پھر کچھ وقفے کے بعد جب منظر صاحب نے تیسری مرتبہ پوچھنا شروع کیا ‘سر ہیں؟ سر ہیں؟’ تو اجتبٰی رضوی مرحوم نے انتہائی غصّہ میں اپنے تلوے پر ہاتھ ماڑتے ہوئے فرمایا کہ تمارے سر میرے پیر ہیں ۔ میں اس کا سکریٹری نہیں ہوں ۔ منظر اعجاز صاحب پشیمانی کے عالم میں خاموش کھڑے رہے۔ پھر کہیں سے مرتضیٰ مرحوم نمودار ہوئے اور انہیں ہنستے ہوئے اندر لے گئے۔