ازقلم عطاء الرحمن قادری فیضی
جامعہ عربیہ اہل سنت مظفرالعلوم
اولیاء عظام رضی اللہ نہم کی بارگاہوں میں حاضری دینا اور ان کی صحبت و رفاقت اپنانا جس طرح ان کی حیات بابرکات میں باعث برکات و خیرات ہے ایسے ہی ان کی حیات بعد الممات میں بھی موجب حصول فیوض برکات ہے۔ ہر زمانے میں ان کی بارگاہوں میں حاضری دینا اہل اسلام کا شعار رہا ہے۔ امت مسلمہ میں کیا نے بھی اس کو خلاف شرع نہیں بتایا ہے اور نہ ہی کسی طرح کا انکار کیا ہے۔
منکرین کی جماعت بعد کی پیداوار ہے اور وہ گمراہ و بد دین لوگ ہیں۔ ان کے سارے دلائل وشواہد تار عنکبوت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ —‐—-اسلائی بھائیو! مزارات اولیاء عظام رضی اللہ عنہم کی حاضری کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی بھی صاحب مزار کے مزار کی حاضری کا موقع میسر ہو تو با ادب پائتی کی جانب سے حاضر ہوکر مزار سے تقریبا چار ہاتھ کے فاصلے پر رہ کر بطریق سنت السلام علیکم اہل الدیار من المومنین والمسلمين وانا ان شاء الله بكم لاحقون پڑھے۔ پھر بقدر استطاعت قرآن مجید کی تلاوت کرے کم ازکم الحمد للہ شریف اور سورہ اخلاص قل ھواللہ احد پڑھ کر ان کا ثواب صاحب مزار کی روح کو ارسال کرے۔ اس کے بعد جوبھی سوال کرنا ہو، مرادیں مانگنی ہوں، انھیں بزرگ کے وسیلے سے الله جل شانہ ہی سے مانگے اور کسی بھی چیز کا سوال کرے۔ کیوں کہ الله جل شانہ ہی نفع ضرر سودوزیاں کا بالذات مالک ہے۔ وہی حاجات و ضروریات پوری فرمانے والا ہے۔ ہاں اولیاء والدین عظام رضی اللہ نہم کے وسیلے سے بیان کی بابرکت بارگاہوں میں پہونچ کر جو دعامانگی
جاتی ہے وہ بہت جلد شرف قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔ اور اگر مستقل بالذات سمجھ کر بزرگوں ،الدواوں سے مشکلات کی گھڑیوں مددمانگے انہیں سے اپنی ضروریات طلب اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری کا شرعی طریقہ اولیاء عظام رضی اللہ نہم کی بارگاہوں میں حاضری دینا اور ان کی صحبت و رفاقت اپنانا جس
ان کی حیات بابرکات میں باعث برکات و خیرات ہے ایسے ہی ان کی حیات بعد الممات مد بھی موجب حصول فروش برکات ہے۔ ہر زمانے میں ان کی بارگاہوں میں حاضری دینا اہل
نام کا شکار رہا ہے۔ امت مسلمہ میں کیا نے بھی اس کو خلاف شرع نہیں بتایا ہے اور نہ ہی کسی طرح کا انکار کیا ہے۔ منکرین کی جماعت بعد کی پیداوار ہے اور وہ کراہ و بد دین لوگ ہیں۔ ان سے سارے دلائل دشواہد تار عنکبوت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اسلائی بھائو مزارات اولیاء عظام رضی اللہ نہ کی حاضری کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی بھی صاحب مزار کے مزار کی حاضری کا موقع میسر ہو تو با ادب پانی کی جانب سے حاضر ہوکر مزار سے تقریبا چار ہاتھ کے فاصلے پر رہ کر بطریق سنت السلام علیکم اہل الہ یار من المومنین مسلمين وانا ان شاء الله بكم لاحقون پڑھے۔ پھر بقدر استطاعت قرآن مجید کی تلاوت کرے یکم ازکم الحمد للہ شریف اور سورہ اخلاص قل ھواللہ احد پڑھ کر ان کا ثواب صاحب مزار کی روح کو ارسال کرے
۔ اس کے بعد جوبھی سوال کرنا ہو، مرادیں مانتی ہوں، انھیں بزرگ کے وسیلے سے الله جل شاندی سے مانگے اور کسی بھی چیز کا سوال کرے
۔ کیوں کہ الله جل شانہ ہی نفع ضرر سودوزیاں کا بالذات مالک ہے۔ وہی حاجات و ضروریات پوری فرمانے والا ہے۔ ہاں اولیاء والدین عظام رضی اللہ نہم کے وسیلے سے بیان کی بابرکت بارگاہوں میں پہونچ کر جو دعامانگی
جاتی ہے وہ بہت جلد شرف قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔ اور اگر مستقل بالذات سمجھ کر بزرگوں ،الدواوں سے مشکلات کی گھڑیوں مددمانگے انہیں سے اپنی ضروریات طلب کرے تو بھی-
ایک طرح کا وسیلہ وفریہ ہے۔ جیسا کہ گذشتہ اوراق میں گزر چکا ہے۔ یاد رہے غیر مستقل بالذات کا مطلب یہ ہے کہ ان اولیاء اللہ کے پاس جو کچھ بھی ہے الله تعالی جل شانہ کا دیا ہوا
ہے۔ وہ جو کچھ بھی کسی کو دیتے ہیں اللہ تعالی کی عطا اور اس کی دی ہوئی طاقت و قدرت سے دیتے ہیں۔ بالذات حقیقت میں عطا فرمانے والا صرف وحدہ لاشریک کی ذات بابرکات
ہے۔ اس کے حکمو مرضی کے بغیر کوئی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں پہونچا سکتا۔ اولیاء الله وصاعين = رضی عنہم بھی اسی کی اعلی و ارفع مخلوق وملوک میں ہیں۔ وہی ان سب کا بھی خالق و مالک
ہے۔ اس مالک الملک نے انہیں پریشان حال بندوں کی پریشانیوں کے دور کر نے کی ، ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرنے کی حیرت انگیز قوت و توانائی عطا فرمائی ہے ۔ اس کے دست قدرت میں ساری چیزیں ہیں۔ وہی مطلق العنان بادشاہ حقیقی ہے ۔ اس کی قدرت وطاقت کے جلوے ہرادنی و اعلی میں درخشندہ وتابندہ ہیں ۔ اس سے لاتعلق و کنارہ کش ہو کر ہر شئ لاشیء ہے۔ سب کچھ اسی کا ہے، اسی سے ہے، اسی تک ہے۔ بس اس کا وجود و جود ہے۔ وہی مطلوب و مقصود ہے۔ اس کی رضا وخوشنودی بندے کا منشور ہے۔ اس کے صدقے میں ساری کائنات نورعلی نور ہے۔ اس سے حضرت آدم کی آدمیت ہے۔ حضرت نوح کی نجبتعد ہے۔ اس سے زکریا کی معصومیت ہے۔ ای حضرت اسحاق کی رضا ہے۔ حضرت ایوب کاصبر بھی اسی سے ہے۔ اس سے یوسف کا جمال ہے۔ حضرت موئی کا جلال ہے۔ حضرت عیسی کا کمال ہے۔ اس سے حضرت ابراہیم کی خلت ہے۔ ایک سے حضرت اسماعیل کا ایثار ہے۔ وہی وہ ہے۔ اس کا سب کچھ ہے۔ اس نے ہمارے
اور آپ کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ارواحنافداه ﷺکو مولائے کل ختم الرسل باعث ایجاد عالم رحمة للعالمین اورمظہر ذات و صفات بنا کر بھیجا ہے —————-