ازقلم: سراج احمد نظامی
خادم: مدرسہ عربیہ اہلسنت فیض العلوم
ہیتم پور ، دیوریا (یوپی)
اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (النسا ٕ ، ٦٤)
اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائیں تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں (کنزالایمان)
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ:
اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔} یہاں رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کو بھیجتا ہی اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اَنبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معصوم بناتا ہے کیونکہ اگر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود گناہوں کے مُرتَکِب ہوں گے تو دوسرے ان کی اطاعت و اِتّباع کیا کریں گے۔ رسول کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کا طریقہ ہی رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس سے ہٹ کر اطاعت ِ الٰہی کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں لہٰذا جو رسول کی اطاعت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا اگرچہ ساری زندگی سر پر قرآن اٹھا کر پھرتا رہے۔
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ:
اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے۔} آیت کے اس حصے میں اگرچہ ایک خاص واقعے کے اعتبار سے کلام فرمایا گیا، البتہ اس میں موجود حکم عام ہے اورقیامت تک آنے والے مسلمانوں کو سَرورِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر شفاعت طلب کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کی بارگاہ میں آجائیں کہ یہ بارگاہ، رب کریم عَزَّوَجَل کی بارگاہ ہے، یہاں کی رضا، رب عَزَّوَجَل کی رضا ہے اور یہاں کی حاضری، رب ِ کریم عَزَّوَجَل کی بارگاہ کی حاضری ہے، یہاں آئیں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کے ساتھ حبیب ِ ربُّ العٰلَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں بھی شفاعت کیلئے عرض کریں اور نبی مُکَرَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کیلئے سفارش فرما دیں تو ان لوگوں پر اللہ عَزَّوَجَل کی رحمت و مغفرت کی بارشیں برسنا شروع ہوجائیں گی اور اس پاک بارگاہ میں آکر یہ خود بھی گناہوں سے پاک ہوجائیں گے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک جیسا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔
قال تعالٰی:
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(٦٤)
اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
حضور کے عالَم حیات ظاہری میں حضور (یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا، اب حضورِمزار پُر انوار میں ہیں اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور پُر نور کی طرف توجہ ،حضور سے تَوَسُّل، فریاد، اِستِغاثہ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔ ملا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ شرح شفا شریف (الباری) میں فرماتے ہیں رُوْحُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حَاضِرَۃٌ فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ،
ترجمہ : نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔(فتاوی رضویہ، ۱۵
یاد رہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اور وصالِ ظاہری کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مزار پر انوار پر حاضری دے کر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے، اپنی مغفرت ونجات کی اِلتِجاء کرنے اور اپنی مشکلات کی دوری چاہنے کا سلسلہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین سے چلتا آ رہا ہے۔
حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضۂ اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ انور کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جو آپ نے فرمایا، ہم نے سنا اور جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر نازل ہوا ،اس میں یہ آیت بھی ہے ”وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا“میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو اے مصطفے کریم آپ اللہ عَزَّوَجَل سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے ۔اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تجھے بخش دیا گیا۔
(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ٦٤، ص۲۳۶)
الغرض یہ آیت ِ مبارکہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عظیم مدح و ثنا پر مشتمل ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت عظیم البرکت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں۔
کرکے تمھارے گناہ مانگیں تمھیں سے پناہ
تم کہو دامن میں آ تم پہ کروڑوں درود