ازقلم: خلیل احمد فیضانی
عیش پرست امیروں کی تلوا چٹائی و خود ساختہ سیاسی لیڈروں کی خوشا مدی ہم سے کبھی نہیں ہوسکتی,
اگرچہ بعض یتیم الفکر لوگوں کی زندگیاں مذکورہ دونوں اوصاف کے اردگرد ہی گردش کرتی نظر آتی ہیں… ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ وہ ان کی فرسودہ فکر کو حیات عطا فرماۓ.. آمین..
مذہبی طبقے سے وابستہ افراد کا انداز زندگی یہ ہونا چاہیے کہ ان کی خفیف سی حرکت کے ذریعے بھی عوام کے اندر تملق پسندی کا مسیج نہیں جانا چاہیے-
آج عوامی حلقوں میں لفظ”مولانا”,” مولوی "وغیرہ سبب استہزا بن چکے ہیں..ایسے میں ہم کو ” العوام کا الانعام”کے ساتھ نہایت محتاط طریقے سے پیش آنا چاہیے-
عوام, مولانا حضرات کی عاجزی کو مجبوری پر محمول کرتے ہیں, اس لیے میرا اپنا ناقص مشورہ یہ ہے کہ عوام بالخصوص ان کے تکبر پسند نیتاؤں و پنچ پٹیلوں کے سامنے بجاۓ عاجزی اختیار کرنے کے رعب و داب کا مظہر بن کے رہنا چاہیے… ویسے انھیں جیسے لوگوں کے ساتھ پیش آنے کے لیے کہا گیا ہےکہ:”التکبر مع المتکبر جائز "-
اقبال کا نام ہمارے مذہبی حلقے میں بڑے احترام و شوق سے لیا جاتا ہے ,مگر جاے حیرت ہے کہ جو علامہ اقبال ساری زندگی ہمیں اسباق خودی پڑھاتے رہے..ان کا نام اس قدر بہ کثرت جپنے کے باوجود بھی کچھ حضرات ان کی دی ہوئی فکر سے بالکل متضاد زندگی گزار رہے ہیں…شاید وہ اپنی اہمیت یا تو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاۓ ہیں یا پھر سمجھنے کے باوجود بھی شوقیہ طور پر کاسہ لیسی کو ہی مقصد حیات گردان بیٹھے ہیں۔
یقین کریں آج بھی اگر ہماری نگاہیں پاکیزہ ہو جائیں اور دل سوز و گداز کی کیفیات سے سرشار ہوجاۓ تو ہمیں کسی بڑے سے بڑے تیس مار خاں کا باک بھی ہراساں نہیں کرسکتا…
ورنہ شاعر مشرق پہلے ہی فرما چکے ہیں…
ع..دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے
کہتے ہیں "نیم حکیم خطرہ جان نیم ملا خطرہ ایمان” مؤخرالذکر حضرات نے اپنی غیر سنجیدہ حرکات و غلامانہ تملق پسندی سے پورے مذہبی حلقے کے وقارکو مجروح کرکے رکھ دیا ہے..
گلی چبوترے کے نیتا کے ساتھ سلیفی یا محض ہاتھ ملانے ہی کو معراج زندگی سمجھنے والے لوگوں سے خود داری اختیار کرنے کی کیا توقع وابستہ کی جاسکتی ہے…..کہیں تو کس سے کہیں حدیث راز و نیاز..
نوبت بایں جارسد کہ
خودداری ہے نہ عالمانہ جاہ و جلال ہے
بس ذہنی غلامی کا گویا ایک سیلاب آیا ہوا ہے جس کی زد میں آکر سب کچھ بہا جارہا ہے …
ہمیں اپنی خودی بلند کرنی چاہیے۔ ہمارا عروج اسی میں پنہاں ہے…
جیسا کہ علامہ اقبال نے لکھا ہے..
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ساری کام یابیوں کا انحصار خودی میں مضمر ہے..تاج وقار اس خودی کے اپنانے میں ہے
اقبال نے تو یہاں تک لکھا کہ..
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
یقینا خودی اگر زندہ ہو تو فقر میں بھی شہنشاہی کی شان پیدا ہوجاتی ہے, اور عالم کا ذرہ ذرہ اس کے تصرف میں آجاتا ہے..
خودی زندہ تو فقر میں شہنشاہی
ہے سنجرل و طغرل سے کم شکوہ فقیری…
اس لیے خدارا ہم اپنی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں…انگریز کی جسمانی غلامی سے آزاد ہوے تو ان سرغنوں کی ذہنی و فکری غلاموں کو منظور کربیٹھے..ایں حماقت است و ابو العجبی است..
ہمارا دائرہ فکر محدود ہے اس لیے ہمیں اپنی دنیا سے باہر نکلتے خوف سا محسوس ہوتا ہے…ایسا کبھی نہیں ہونا چاہئے…
کیوں کہ عالم تو صرف مومن جاں باز باز کی میراث ہے…
یہ عالم ہمارے لیے مسخر کیا گیا ہے نہ کہ ہم اوروں کے لیے مسخر کیے گئے ہیں۔ہمیں خود داری و وقار والی زندگی جینی چاہیے تاکہ مقصد حیات کو سمجھنے میں آسانی ہو
خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاکدان سے نہیں
جہاں تجھ سے, تو جہاں سے نہیں