مضامین و مقالات

وسائل سے مسائل کا حل

از: مدثراحمد، شیموگہ کرناٹک
9986437327

رجت دتتا نامی محقق نے ایک ریسرچ کی ہے جس میں انہوں نے اس بات کا پتہ لگایاہے کہ ملک میں جسٹس سچر کمیٹی کی سفارشات کو14 سال گذرنے کے باوجودا ب تک مسلمانوں کے حالات بہتر نہ ہوئے ہیں،نہ توحکومتوں نے اس سمت میں کوئی کام کیاہے اور نہ ہی مسلم تنظیموں اور نمائندوں نے مسلمانوں کے حالات کو بہتربنانے کیلئے پیش رفت کی ہے۔آج بھارت میں مسلمان ایک ایسا طبق ہے جو نہایت پسماندگی کا شکارہےا ور یہ لوگ روزگار ،تعلیم اور معاشی طور پر کمزور مانے جانے والی قوم میں شمار ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کے پاس جو اوقافی املاک ہے وہ دوسری قوموں کی املاک کے مقابلوں میں سب سے زیادہ ہے،اوقافی اداروں کی آمدنی کا جب بھی جائزہ لیاجاتاہے تو ریلوے کے بعد سب سے زیادہ آمدنی مانی جاتی ہے۔مگر جس قوم کو معاشی،اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے دلتوں سے بدتر ماناگیاہے وہ قوم آخر ان اوقافی اداروں کی آمدنی کا استعمال کرنے سے قاصرکیوں ہےجو سب سے بڑا سوال ہے؟جائزہ لیاجائے تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک کی13 بڑی ریاستوں میں اوقافی املاک پر70 فیصد غیر قانونی قبضے ہوئے ہیں اور یہ قبضے کرنے والے عام لوگوں سے زیادہ مسلمانوں کے سیاسی،ملّی قائدین ہیں،ان کے ساتھ حکومتیں بھی ہیں،اس وجہ سے مسلمان ان اوقافی اداروں سے استفادہ کرنے سے قاصرہیں۔حکومتوں اور وقف بورڈ سے حق مانگنا اس وقت تیسری جنگ عظیم کرنے کے برابرہوگا،یہی وجہ ہے کہ اب مسلمانوں کو اپنے بل بوتے پر اپنے وجود کوبچائے رکھنے کیلئے پیش رفت کرنا ہوگا۔مالدار مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر ہی سہی مسلمانوں کوروزگا رسے جوڑنے کیلئے کام کرتے ہیں،چھوٹی صنعتیں ،دستکاریاں،کارخانے اور فیکٹریاں بناتے ہیں تو اس سے کئی روزگارکے وسائل پیدا ہونگے اور مسلمانوں کی معاشی و اقتصادی مسائل حل ہوجائینگے۔مسلمانوں کے پاس میان پائورکی کمی نہیں ہے نہ ہی مالدارطبقے کی کمی ہے،اگر کمی ہے تو صرف اخلاص اور وسیع النظرکی۔ہم نے کئی ایسے مالداروں کو دیکھاہے جو صرف زمینیں،زمینیں اور صرف زمینیں خریدنے کوہی مالداری سمجھ رکھا ہے۔یقیناً اگر یہ لوگ اپنی مالداری کو ظاہر کرنا چاہتےہیں تو وہ بھی ٹاٹا،ریلائنس،پرسٹیج جیسی کمپنیوں کا آغاز کرتے ہوئے نہ صرف اپنے مال کو بڑھاوا دے سکتے ہیں بلکہ اپنے ماتحت سینکڑوں افراد کو روزگار دے سکتے ہیں۔آج رئیٹل سیکٹر کا جائزہ لیں تو وہاں پر مارواڑیوں کا قبضہ ہے،اڈمنسٹریشن کا جائزہ لیں تو وہاں پر برہمنوں کا قبضہ ہے،مینوفیکچرنگ یونٹس پر دیکھیں تو وہاں پر بھی اونچی ذاتوں کادبدبہ ہے۔بھارت کے ٹاپ مالداروں کی فہرست نکال کر دیکھیں تو وہاں پر گجراتی کاروباریوں کے نام سامنے آئینگے،وہی مزدور پیشہ لوگوں کی فہرست کا جائزہ لینگے تو سب سے زیادہ مسلمان ہی سامنے آئینگے۔یہ اور بات ہے کہ مزدوری کرنا عیب نہیں ہے لیکن پڑھے لکھے ہوکر بھی کئی نوجوان روزگارنہ ملنے کی وجہ سے مزدوری کرنے کیلئے مجبورہیں۔ہوٹل بزنس کا جائزہ لیں تو اس میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی نہیں ہے،آج ہر کاروبار میں مسلمانوں کا وجود کمزور ہوتاجارہاہے،جبکہ تجارت مسلمانوں کیلئے سُنت اور برکت قرار دی گئی ہے،مگر اسی تجارت سے برکت حاصل کرنے کےبجائے آج بیرونی ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت غلامی زندگی گذار رہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مالدار طبقہ اپنے حلقوں میں روزگارکے وسائل بنائیں اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کریں،ورنہ یہ قوم غلامی کے لائق بھی نہیں رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے