تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
اگر پتھر کو تراش کر خوبصورت بھی بنا دیا جائے تو بھی وہ پتھر ہی رہے گا۔ وہ ہیرا نہیں بن سکتا۔
اگر ہیرا کیچڑ میں بھی پڑا ہو تو ہیرا ہی رہے گا۔وہ پتھر نہیں ہو سکتا۔
آج کل لوگ پہلے سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو گئے۔وہ علم و دانش کی بڑی ڈگریاں حاصل کر گئے,لیکن انسانیت پستی اور زوال کی طرف جا رہی ہے۔
ہونا یہ چاہئے کہ تعلیم یافتہ ہونے پر انسانیت کو فروغ ملتا,لیکن جرائم مزید بڑھتے گئے۔انسانیت کمزور ہوتی گئی۔
جب لوگ جاہل تھے تو ان کے اندر انسانیت پائی جاتی تھی۔ایک دوسرے کے ساتھ محبت بھرا ماحول تھا۔تعلیم کا فروغ ہوتے ہی انسانیت کو گہن لگ گیا ہے۔
غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انسانوں کی فطرت میں جرائم کا مادہ موجود ہے اور بہت سے صالح فطرت بھی ہیں۔
جن کو فطرت صالحہ ودیعت کی گئی ہے,وہ پڑھ لکھ لیں یا جاہل رہیں,ان کا میلان اچھے اخلاق وعادات کی طرف ہی ہوتا ہے۔
جو فطرت ردیئہ رکھتے ہیں,وہ پڑھ لکھ کر حیوان بن گئے اور بعض لوگ شیطان بن گئے۔
تعلیم پانے سے ان لوگوں کو اضافی شعور پیدا ہوا۔اپنی عقل و شعور کو ان لوگوں نے غلط کاموں میں استعمال کیا اور بڑے بڑے جرائم کرنے لگے۔
غور وفکرسے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جب تعلیم کے ساتھ عمدہ تربیت اور پاکیزہ صحبت ہو تو لوہے پر سونے کا رنگ چڑھ سکتا ہے اور سونا مزید نکھر سکتا ہے۔
اگر تعلیم کی بڑی بڑی ڈگریاں مل گئیں اور صالح تربیت اور نیک صحبت سے محرومی ہے تو اس کا نفس اس کا مربی اور شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔پھر وہ جاہلوں سے بڑھ کر جرائم کرتا ہے۔
آج کل ایسے ایسے جرائم ہوتے ہیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سخت حیرانی ہوتی ہے۔اخبارات ورسائل میں جرائم کا خاص کالم ہوتا ہے۔ایسے ایسے انہونی حادثات پڑھنے کو ملتے ہیں کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔یہ سب جدید تعلیم کی برکتیں ہیں۔
مذہب اسلام نے حصول علم کا حکم دیا ہے,لیکن اسی علم کا اعتبار ہے,جس پر عمل ہو۔