ازقلم: کمال احمد علیمی نظامی
تریپورہ کے مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، مساجد، مدارس اور دینی اداروں میں آتش زنی، توڑ پھوڑ کے ساتھ نہتھے مسلمانوں پر تشدد کے واقعات نہایت تکلیف دہ اور افسوس ناک ہیں، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، پھر ارباب اقتدار کی خاموشی اور میڈیا کی معنی خیز چپی بھی حیرت انگیز ہے، سب سے بڑی جمہوریت والے ملک میں اس طرح کا واقعہ جمہوریت کا خون ہے، اس ملک میں ہر کسی کو مذہبی آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق حاصل ہے،یہی ہندوستان کی جمہوریت کا طرہ امتیاز بھی ہے کہ یہاں ہر مذہب وملت کے لوگ آزاد اور محفوظ ہیں، اکثریت کو یہ حق نہیں کہ وہ اقلیت پر اپنی دادا گیری کا دھونس جمائے،نہ ہی اقلیت کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اکثریتی طبقہ کے کسی بھی فرد کو زک پہنچائے، آئین ہند کا دفعہ نمبر ٢٥ملاحظہ ہو :
دفعہ ۲۵: (۱) تمام اشخاص کو آزادیٴ ضمیر، اورآزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کا مساوی حق ہے بشرطے کہ امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات متأثر نہ ہوں۔
علاوہ ازیں دفعہ نمبر ١٤ میں قانونی مساوات، دفعہ ١٥میں مذہب، نسل، ذات، جنس، جائے پیدائش یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
ایسے میں اگر ہندوستان کے کسی حصے میں اکثریت کی طرف سے اقلیتی طبقہ کے کسی فرد پر ظلم کیا جارہا ہے تو آئین ہند کی صاف خلاف ورزی ہے،مگر حیرت اس بات پر ہے کہ جو اس طرح کی غیر آئینی حرکتیں کر رہے ہیں وہی آئین کے سب سے بڑے محافظ مانے جارہے ہیں.
ارباب اقتدار کی خاموشی بھی افسوس ناک ہے،جو لیڈران معمولی سے واقعات پر زمین آسمان ایک کردیتے ہیں ان کے سامنے مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے مگر دوچند کو چھوڑ کر باقی سب کان میں روئی اور آنکھ پر پردہ ڈال کر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں،ہاں اگر تریپورہ میں کوئی الیکشن ہونے والا ہوتا تب ان کی بھاگ دوڑ قابل دید ہوتی.
میڈیا جو رات دن ایک شخص کی ضمانت ورہائی کو لے کر چوبیس گھنٹے کوریج کررہی ہے اس کو تریپورہ کے واقعات نظر نہیں آرہے ہیں، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ،یہ سب ہماری بے وقعتی کا شاخسانہ ہے، اب ہم پستی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بھی ہمارا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا.
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم متحد ہو کر آواز اٹھائیں،تحریر، تقریر جس شکل میں ممکن ہو اپنے بھائیوں پر ظلم کے خلاف احتجاج کریں، خاص طور سے مسلم لیڈران، دانش وران، خانقاہوں کے مسند نشین پیران عظام، اندھیری رات کے مجاہد خطباے کرام اپنا مہر سکوت توڑ کر میدان میں اتریں، آئین کی پاس داری کے ساتھ علم احتجاج بلند کریں، ورنہ ایک دن ہمارا بھی نمبر آئے گا۔