خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاکستان
اب تجھے خود سے جدا کیا کرنا
دل کہیں اور فدا کیا کرنا
اک تمہیں سے یہ دل لگایا ہے
سوچ کے اچھا برا کیا کرنا
بس یہی بات میں کہوں تم سے
اب وفا ہو یا جفا کیا کرنا
کیوں ہو تم دور دور اب مجھ سے
اب ہو میرے تو حیا کیا کرنا
یونہی کرتے رقیب ہیں سارے
جا کے ان سے گلہ ہے کیا کرنا
زندگی میں وفا نہیں ملتی
طول عمری کی دعا کیا کرنا
اپنے فیضان کا دل بسا لو تو
ہجرتیں پھر یہاں سے کیا کرنا