علما و مشائخ

صدر الافاضل اعلی حضرت کے نظریہ اور مسلک کے عظیم داعی وناشر

تحریر: محمد عرفان قادری
استاذ مدرسہ حنفیہ ضیاءالقرآن شاہی مسجد بڑا چاند گنج لکھنؤ

دین اسلام کو پھیلنے سے روکنے کے لئے باطل طاقتوں نے ابتدا ہی سے ہرممکن تدبیریں کی ہیں۔لیکن جس دین کو اللہ رب العزت نے اپنا پسندیدہ دین قرار دیا ہو اور اس کوتمام ادیان و مذاہب پر غالب کرنے کا وعدہ فرمایا ہواس کی اشاعت کیسے رک سکتی ہے۔تاہم دشمنان اسلام نے دین اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔اسلام وقرآن کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے میں جب وہ ناکام رہے تو تاجدار کائنات محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور آپ کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے لگے۔یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ اسلام کو سب سے زیادہ نقصان منافقین نے پہنچایا ہے جن کی ظاہری شکل وصورت مسلمانوں جیسی ہوتی مگر باطن میں یہی اسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے۔پیغمبر اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایذا دینا،آپ کی ذات میں عیوب تلاش کرنا نیز رسول اکرم کی تحقیر وتذلیل  اور آپ پر بہتان طرازی منافقین کی زندگی کا نصب العین تھا۔شان رسالت میں بے ادبی ودشنام طرازی کا سلسلہ خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری حیات میں ہی شروع ہو چکا تھا۔جن بدبختوں نے اہانت رسول کا سلسلہ شروع کیا تاریخ شاہد ہے وہ دنیا میں خائب و خاسر ہوئے اور آخرت میں جہنم کے سب سے نچلے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی جاں نثار امت کو ان گستاخوں سے دور ونفور رہنے کی تعلیم و تاکید فرمائی اور ان کی واضح نشانیاں بھی بیان فرمائیں۔وقت گزرنے کے ساتھ شیطان کی ذریت بھی بڑھتی گئی اور نئے نئے فتنے پیدا ہوتے گئے۔خالق کا ئنات اپنے دین اور محبوب پیغمبر کی حفاظت کے لئے ہردور میں ایسے بندوں کو بھیجتا رہا جنہوں نے باطل کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔تیرہویں صدی ہجری سے پیشتر برٹش گورنمنٹ نے ہندوستان کو غلام بنانے کا منصوبہ تیار کیا اور اس صدی کے آغاز تک ہندوستان پر قبضہ جما لیا۔انگریزوں نے تقریباً دو سو سال تک ہندوستان پر حکومت کیا۔انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کو بانٹنے کی پوری کوشش کی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگئے۔امت کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے وہی پالیسی اختیار کی جو منافقین نے اپنائی تھی اور ہوس پرست علما کو دولت و منصب کی لالچ دے کر اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اہانت پر آمادہ کیا اس طرح زرخرید علما بڑی آسانی سے ان کی مہم کا حصہ بن گئے اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھرنے لگا۔اس عہد کے علمائے حق نے اس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،مناظرے ہوئے،کتابیں لکھی گئیں اور مسلمانوں کو تکفیری گروہ سے دور ونفور رہنے کی تلقین کی مگر بہت سے سادہ لوح مسلمان باطل کے دام فریب میں آگئے   اور اسلام کا صاف ستھرا چہرہ گردآلود ہونے لگا۔10 شوال المکرم1272ھ/14جون 1856ء میں مجدد اسلام اعلی حضرت امام احمد رضا خان کی ولادت ہوئی جنہوں نے اسلام وقرآن اور ناموس رسالت کے تحفظ میں ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا اور اسلام کے گردآلود چہرے کو بالکل صاف وستھرا کردیا۔امام احمد رضا نے جس وقت علمائے سو کی دل آزار اور ایمان سوز کتابوں کا ردوتعاقب کیا اور ان کی گستاخیوں کو اجاگر کیا تو وہ اپنی غلطیوں پر نادم وشرمندہ ہونے کی بجائے ان کے دشمن بن گئے اور مخالفت پر اترآئے۔امام احمد رضا ایک سچے عاشق رسول تھے اس لیے جن کے دل نورایمان سے منور تھے وہ آپ سے قریب ہوتے گئے اور اس دور کے تمام علمائے حق نے اعلیٰ حضرت کی آراء وتحقیقات کو نہ صرف یہ کہ تحسین کی نظر سے دیکھا بلکہ مکمل تایید وتوثیق کی اور ان کے مشن کا حصہ بن گئے۔تعلیمات رضا کی ترویج و اشاعت میں جن علما نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں صدر الافاضل فخر الاماثل مفسر قرآن حضرت علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ والرضوان (ولادت:یکم جنوری 1883ء وفات:23 اکتوبر 1948ء) کا نام سرفہرست ہے۔صدرالافاضل اعلی حضرت کے نظریہ ومسلک کے نہ صرف حمایتی تھے بلکہ اس کے عظیم داعی وناشر بھی تھے۔ صدر الافاضل کی تعلیم و تربیت علامہ سید گل محمد قادری مراد آبادی کے زیر سایہ ہوئی مگر اعلی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ نے اپنے علمی و روحانی فیوض کو عطا فرماکرآپ کی زندگی میں چار چاند لگا دیا۔ صدر الافاضل کا خطاب آپ کو بارگاہ اعلی حضرت سے ہی عطا ہوا۔آپ کی تبلیغ،طریقۂ تدریس ،طرزتحریر سب کچھ اعلی حضرت کی تعلیم کے عین مطابق تھا۔جس طرح اعلی حضرت کا ترجمہ قرآن "کنزالایمان” تمام اردو تراجم میں فوقیت رکھتا ہے اسی طرح صدر الافاضل کی تفسیر” خزائن العرفان”اردو تفاسیر میں نمایاں وممتاز ہے۔اردو زبان میں قرآن پاک کی متعدد تفسیریں لکھی گئیں۔اغیار کے علاوہ علمائے اہل سنت نے بھی قرآن مجید کی تفسیر لکھنے میں بڑی اہم کاوشیں انجام دیں مگر جس اختصار،جامعیت اور سلیس انداز میں صدر الافاضل نے کنزالایمان کی تفسیر رقم کی ہے اس کا متبادل پیش نہیں کیا جا سکتا۔تفسیر خزائن العرفان بلا شبہ علم و معرفت کا خزینہ ہے جس کے مطالعہ کے بعد قرآن کے صحیح معنیٰ و مطالب تک رسائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ساتھ ہی جن نام نہاد مفسرین نے قرآنی آیات کی خود ساختہ تفسیر یں کی ہیں ان کا چہرہ بھی بے نقاب ہو جاتا ہے۔اسلام کے مسلمہ عقائد میں سے جن امور کو یہودونصاری اور منافقین و خوارج نے متنازع بنا نے کی مذموم کوششیں کیں ان میں سے ایک علم غیب بھی بے۔قرآن مقدس میں علم غیب کے اثبات ونفی دونوں کے متعلق آیتیں موجود ہیں۔مگر کچھ لوگوں نے دانستہ طور پر رسول اکرم کے علم پر اعتراض جتانا شروع کیا اور حضور پاک کے لئے غیب کا علم ماننے سے انکارکردیا اور مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا کسی دوسرے نبی ورسول کے لئے غیب کا علم مانے تو وہ مشرک ہے۔اس طرح وہ قرآن کی کئی آیات جن سے انبیا ورسل علیھم السلام کے لئے غیب کا اثبات ہوتا ہے انکارکرکے خود ہی کفر کے غار عمیق میں جاپہنچے۔اعلی حضرت نے دونوں قسم کی آیتوں کے درمیان نہایت خوبصورت تطبیق کرتے ہوئے فرمایا کہ جن آیات سے غیر خدا کے لئے علم غیب کی نفی ہوتی ہے اس سے مراد ذاتی علم غیب ہے۔یعنی بنا اللہ کے بتائے کوئی غیب نہیں جانتا یہ صرف اللہ کی صفت ہے اور جن آیات سے خاصان خدا یعنی انبیا ورسل خصوصا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے غیب کا ثبوت ہے ان سے مراد عطائی علم غیب ہے۔ذاتی اور عطائی فرق کے ساتھ علم غیب کا عقیدہ رکھنے سے نہ تو قرآن کی کسی آیت کا انکار لازم آتا ہے اور نہ ہی اللہ کی ذات میں کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانے کا سوال اٹھتا ہے۔ صدرِ الافاضل رحمتہ اللہ علیہ نے خزائن العرفان میں علم غیب کے مسئلہ کو مزید اجاگر کیا ہے اور جگہ جگہ قرآنی آیات،احادیث صحیحہ اور جمہور مفسرین کے اقوال و آراء سے استدلال کرکے چور راستے پر پہرہ بٹھا دیا ہے۔بدمذہب خصوصیت کے ساتھ اہل حدیث اور دیوبندی جب یہ مسئلہ زیر بحث آتا ہے کہ اللہ نے اپنے حبیب کو علم ماکان ومایکون سے سرفراز فرمایا ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور سورہ یسین شریف کی یہ آیت وماعلمنہ الشعروماینبغی لہ” اور ہم نے ان کو شعر کہنا نہ سکھایا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے”بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ دیکھو اللہ خود فرمارہا ہے کہ ہم نے نبی کو شعر کی تعلیم نہ دی اور آپ کہتے ہیں کہ نبی کو ہرچیز کا علم ہے۔حالانکہ اس بات سے آیت کا کوئی تعلق نہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو غیب کا علم حاصل نہیں۔مذکورہ آیت کا نزول اس وقت ہوا جب کہ کفار مشرکین نبئ آخر الزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جھوٹا اور آپ پر اترنے والی مقدس کتاب قرآن مجید کو ایک من گھڑت اور جھوٹی کتاب باور کرانے کے درپے تھے۔اللہ رب العزت نے اس آیت کے ذریعہ اپنے کلام اور محبوب پیغمبر کی صداقت کو بیان فرمایا کہ میرا رسول سچا ہے اور اس پر جو کلام اترتا ہے وہ بھی بالکل برحق ہے۔اب اس سلسلے میں صدر الافاضل کی ایمان افروز تفسیر ملاحظہ کیجیے۔آپ اس آیت کی تفسیر میں مدارک،جمل اور روح البیان کے حوالے سے لکھتے ہیں:”معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو شعر گوئی کا ملکہ نہ دیا یا یہ کہ قرآن تعلیم شعر نہیں ہے اور شعر سے کلام کاذب مراد ہے خواہ موزوں ہوں یا غیر موزوں اس آیت میں اشارہ ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم اولین و آخرین تعلیم فرمائے گئے جن سے کشف حقائق ہوتا ہے اور آپ کی معلومات واقعی ونفس الامری ہیں کذب شعری نہیں جو حقیقت میں جہل ہے وہ آپ کی شان کے لائق نہیں۔اور آپ کا دامن تقدس اس سے پاک ہے۔ اس میں شعر بمعنی کلام موزوں کے جاننے اور اس کے صحیح وسقیم ،جید وردی کو پہچاننے کی نفی نہیں علم نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں طعن کرنے والوں کے لئے یہ آیت کسی طرح سند نہیں ہوسکتی اللہ تعالیٰ نے حضور کو علوم کائنات عطا فرمائے اس کے انکار میں اس آیت کو پیش کرنا محض غلط ہے۔”شان نزول بیان کرتے ہوئے مزید رقم طراز ہیں:”کفار قریش نے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) شاعر ہیں اور وہ جو فرماتے ہیں یعنی قرآن پاک وہ شعر ہے۔اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ معاذاللہ یہ کلام کاذب ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ان کا مقولہ نقل فرمایا گیا ہے بل افتراہ بل ھو شاعر اسی کا اس آیت میں رد فرمایا گیا کہ ہم نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایسی باطل گوئی کا ملکہ ہی نہیں دیا اور یہ کتاب اشعار یعنی اکاذیب پر مشتمل نہیں۔”علم غیب کے عنوان پر صدر الافاضل نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام "الکلمة العليا لاعلاء علم المصطفى "ہے۔صدرالافاضل بلند پایہ مفسر ہونے کے ساتھ ایک عظیم فقیہ بھی تھے۔تفسیر قرآن لکھتے وقت جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں فقہی مسائل بھی قلم بند کیے ہیں اور مسلک احناف کی عظمت و برتری کو آشکار کیا ہے۔بطور نمونہ صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ تمام علما وقرا کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ظا اور ضاد ایک حرف نہیں بلکہ الگ الگ حرف ہیں اور دونوں کا مخرج بھی الگ ہے۔لہذا دونوں حرف کو ان کے مخرج سے جدا جدا ادا کرنا لازم و ضروری ہے۔مگر ماضی بعید و قریب کے کچھ مترجمین ومفسرین اور قرا نے سہولت و آسانی کے نام پر ضاد کو مشابہ بالظا پڑھنے کی راے دے ڈالی اور کتابوں میں لکھ بھی دیا۔صدر الافاضل نے جمہور علما،فقہا اور قرا کے مطابق اس مسءلہ کا شرعی حکم بیان فرمایا۔سورۂ فاتحہ کی آخری آیت کی تفسیر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:ضاد اور ظا میں مباحث ذاتی ہے بعض صفات کا اشتراک انہیں متحد نہیں کرسکتا لہذا غیر المغضوب بظا پڑھنا اگر بقصد ہو تو تحریف قرآن وکفر ہے ورنہ ناجائز۔جوشخص ضاد کی جگہ ظا پڑھے اس کی امامت جائز نہیں۔”(خزائن العرفان)”اطیب البیان فی رد تقویة الایمان” کے نام سے صدرِ الافاضل علیہ الرحمہ نے تقویت الایمان کی رد میں نہایت مدلل ومفصل کتاب تصنیف کی اور اہل سنت کے عقائد و معمولات کو ٹھوس دلائل کی روشنی میں بیان فرمایا ہے۔آپ کی کتاب”سوانح کربلا”بھی  نہایت محققانہ ہے۔صدر الافاضل نے نونہالان ملت کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لئے مرادآباد میں جامعہ نعیمیہ کی بنا ڈالی اور مسلمانوں کے ایمان وعقیدہ کے تحفظ اور اہل سنت کے افکار و نظریات کی ترسیل وتبلیغ کے لئے ماہنامہ السوادالاعظم کا اجرا بھ ی فرمایا۔ تحریک شدھی کے سدباب میں بھی صدر الافاضل نے نمایاں کارنامہ انجام دیا۔آپ کی تصنیفی،تبلیغی اور تنظیمی کوششوں سے مسلک اعلی حضرت کی خوب خوب ترویج و اشاعت ہوئی،ہندوستان میں سنیت کا بول بالا ہوا اور فیضان رضا فیضان صدر الافاضل کی شکل میں دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچ گیا۔برصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں کئ تعلیمی ادارے علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ کے نام سے منسوب ہیں۔مسلک اعلی حضرت سے تعلق رکھنے والے افراد واشخاص آپ کی خدمات سے بخوبی واقف ہیں تاہم اکابرین کی خدمات اور کارناموں کو منظر عام پر لاکر نئ  نسل کو ان سے متعارف کرانا عظیم سعادت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے