نتیجۂ فکر: سید اولاد رسول قدسی
نیویارک امریکہ
بے لوث میرے عشق کا انجام ہی تو ہے
مجھ کو جو درد دل ملا ، انعام ہی تو ہے
امید صبح مجھ کو تسلی یہ دے گئی
"لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے”
میں چڑھ کے دوش آہ پہ عرش عُلیٰ گیا
میری ترقیوں کا حسیں بام ہی تو ہے
معنی نے سب سے کہہ کے یہ دامن چھڑا لیا
یہ بے گناہ لفظ پہ الزام ہی تو ہے
پیتے چلے گئے سبھی مے خوار بے خطر
لبریز زہر سے ہے مگر جام ہی تو ہے
مدھم نہ کر سکا مری چاہت کی شمع کو
حربہ مرے حریف کا نا کام ہی تو ہے
پاؤں پہ ہم نے خود ہی کلہاڑی جو مار لی
اپنے کئے کا آج یہ انجام ہی تو ہے
رسوائیوں کی فکر مرا کیا بگاڑتی
لب پر ہوا کے میرا فقط نام ہی تو ہے
جسم یقین پر جو لگاتا رہا ہے ضرب
تحریک ذہن و فکر کا ایہام ہی تو ہے
اس کو فضولیات میں شامل نہ کیجئیے
قدسؔی یہ شاعری بھی بڑا کام ہی تو ہے